Mualim-ul-Irfan - Al-Anfaal : 45
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والے اِذَا : جب لَقِيْتُمْ : تمہارا آمنا سامنا ہو فِئَةً : کوئی جماعت فَاثْبُتُوْا : تو ثابت قدم رہو وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو اللّٰهَ : اللہ كَثِيْرًا : بکثرت لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! جب تمہاری ٹکر ہو ( کسی دشمن کے) گروہ سے ، پس ثابت قدم رہو اور ذکر کرو اللہ کا کثرت سے تا کہ تم فلاح پا جائو
ربط آیات : اس سورة کی ابتداء سے قانونِ صلح وجنگ بیان ہو رہا ہے اور اب تک پانچ اصول بیان ہوچکے ہیں ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب کر کے فرمایا کہ جب کفار سے تمہاری مڈبھیڑ ہوجائے (آیت ) ” فلا تولوھم الادبار “ تو پشت پھیر کر مت بھاگو پھر دوسری بات یہ فرمائی کہ ایمان والوں ! (آیت ) ” اطیعوا اللہ ورسولہ “ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور دیدہ دانستہ روگردانی نہ کرو۔ اللہ نے تیسرا اصول یہ فرمایا کہ اللہ اور رسول کی بات کو قبول کرو جب وہ تہ میں بلائیں ، اسی میں تمہاری حیات ہے پھر چوتھا اصول یہ بیان فرمایا کہ اے اہل ایمان ! نہ تو اللہ سے خیانت کرو اور نہ رسول سے اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے پانچواں اصول یہ فرمایا کہ اے ایمان والوں ! تقوی اختیار کرو اگر ایسا کرو گے تو تمہارے سامنے ہر وقت فیصلہ کن بات رہیگی ، اس کے تحت آگے بہت سی باتیں بیان ہوئیں۔ اب آج کے درس میں چھٹا اصول ثابت قدمی کا بیان ہو رہا ہے اور پھر اس کے تحت مزید سات باتیں اس رکوع میں بیان ہوئی ہیں جن پر عمل کرنا کامیابی کی دلیل ہے ان سات باتوں میں سے چھ باتیں آج کے درس میں آرہی ہیں اور ساتوں بات اگلے درس میں آئے گی۔ ثابت قدمی : ارشاد ہوتا ہے (آیت ) ” یایھا الذین امنوا اذا لقیتم فئۃ فاثبتوا “ اے ایمان والو ! جب تمہاری دشمن گروہ کے ساتھ ٹکر ہو تو ثابت قدم رہو۔ جب بھی کافروں یا مشرکوں سے آمنا سامنا ہو تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ثابت قدم رہو ، ڈھیلے نہ پڑو ، سستی نہ دکھائو بلکہ جرات اور بہادری سے دشمن کا مقابلہ کرو ۔ اس کے نتیجے میں تمہیں فلاح نصیب ہوگی حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اے لوگو ! عام حالات میں ” سل اللہ العافیۃ “ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے عافیت اور سلامتی مانگتے رہو کہ اس سے بری کوئی نعمت نہیں جو کسی کو نصیب ہو ، لہٰذا اپنے ایمان مال ، جان اور اولاد کی سلامتی طلب کیا کرو ، اللہ تعالیٰ سے آزمائش کی خواہش نہ کرو۔ البتہ لقیتم العدو جب دشمن سے ٹکر ہوجائے ” واعلموا ان الجنۃ تحت ظلال السیوف “ تو پھر جان لو کہ جنت تلواروں کے سایے کے نیچے ہے دشمن کے مقابلہ میں بزدلی نہ دکھائو بلکہ ثابت قدمی سے مقابلہ کرو کیونکہ جہاد تمہیں جنت کا حقدار بنا دے گا۔ خاموشی بہتر ہے : فرمایا دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت شور شر مت کرو بلکہ خاموشی کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو۔ مصنف عبدالرزاق کی روایت میں دو الفاظ آتے ہیں ایک یہ کہ دشمن کے ساتھ ٹکر کی خواہش نہ کرو بلکہ سلامتی مانگو اور اگر آمنا سامنا ہوجائے تو پھر ثابت قدم رہو ، طبرانی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تین مواقع پر خاموشی کو پسند کرتا ہے پہلا موقع وہ ہے جب قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموشی اختیار کرو۔ مسند احمد کی رویایت میں بھی آتا ہے ” لا یجھر بعضکم علی بعض “ ایک دوسرے کے سامنے قرآن پاک بلند آواز سے نہ پڑھو۔ تو فرمایا ایک تو تلاوت کے وقت خاموشی اختیار کرو اور دوسرے عند الزحف لڑائی کے وقت بھی خاموش رہو اور تیسرے جنازے کے موقع پر خاموشی سے چلو ، شور وشرابا نہ کرو ، اگر ذکر بھی کرو تو پست آواز سے ہونا چاہیے نعرے لگانا پسندیدہ فعل نہیں ہے شور شرابا کرنا دوسرے لوگوں کا کام ہے ہمارا یہ دستور نہیں ہے۔ بہر حال یہاں پر پہلا اصول ثابت قدمی کا بیان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہو ، اگر موت آگئی تو جنت حاصل ہو جائیگی اور اللہ تعالیٰ بلند درجات عطا فرمائیں گے سب سے پہلے اصول میں یہ بتایا گیا تھا اگر دشمن تم سے دگنی تعداد میں ہو تب بھی مقابلے سے نہ گھبرائو اور نہ پشت پھیر کر بھاگو ایسی حالت میں بھاگنے والا سخت گنہگار ہوگا اور جہنم میں جائیگا وہاں پر اللہ نے اہل ایمان کو تسلی دی کہ مقابلے میں کمزوری نہ دکھائو ، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ تمہاری تھوڑی جماعت کو بڑی جماعت پر غالب کرسکتا ہے ، لہٰذا دل جمعی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرو اور اللہ پر مکمل بھروسہ رکھو۔ ذکر الٰہی کی کثرت : آج کے درس میں جہاد کے سلسلے میں پہلی بات یہ تھی کہ ثابت قدم رہو اور دوسری یہ کہ (آیت) “ واذکروا اللہ کثیرا “ اللہ کا کثرت سے ذکر کرو (آیت) “ لعلکم تفلحون “ تا کہ تم فلاح پا جائو ، کامیاب ہو جائو۔ اللہ کی یاد جس قدر خلوص کے ساتھ ہوگی ، دل اسی قدر مضبوط ہوگا ، پھر یہ ہے کہ ظاہری جسم کی مضبوطی دل کی مضبوطی پر موقوف ہے دل مضبوط ہے تو جسم مضبوط ہے اطمینان قلب کا نسخہ سورة رعد میں یہی بیان فرمایا ہے (آیت) ” الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “ اہل ایمان کے دل ذکر الٰہی سے ہی چین اور سکون پکڑتے ہیں حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرا کامل بندہ وہ ہے جو مجھے اس وقت بھی یاد کرتا ہے جب وہ اپنے دشمن کے ساتھ ٹکر لے رہا ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے جس کی کوئی تحدید نہیں۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ تو محدود ہے مگر ذکر کے لیے کوئی تحدید نہیں اس کے متعلق یہی حکم ہے کہ کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ ذکر کی عام صورت لسانی یعنی زبانی ذکر ہے انسان تلاوت کرتا ہے تسبیح ، تحمید یا استغفار کرتا ہے ، درود شریف پڑھتا ہے یہ سب زبانی ذکر ہے ، تا ہم ذکر بھی اللہ کے مقرر کردہ قواعد کے مطابق ہی ہونا چاہیے ، عام قانون یہ ہے ” خیر الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی “ بہترین ذکر وہ ہے جو آہستہ ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر جائے اگر رزق زیادہ ہو مگر غفلت میں ڈالتا ہے تو وہ بہتر نہیں ہے۔ بہرحال یہ دو باتیں ہوگئیں ایک ثابت قدمی اور دوسری اللہ کا ذکر۔ اللہ اور رسول کی اطاعت : تیسرے اور چوتھے نمبر پر فرمایا (آیت) ” واطیعوا اللہ ورسولہ “ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو اور اس کے رسول کی بھی اس کا ذکر پہلے سورة کے ابتدائی حصہ میں بھی ہوچکا ہے اور اب پھر تاکید کی جا رہی ہے خدا اور اس کے رسول کے ارشادات ، فرامین اور احکام ہر اہل ایمان کے لیے قابل اتباع ہیں۔ سورة حشر میں ہے (آیت) ” ما اتکم الرسول مخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا “ یعنی جو بات اللہ کا رسول کہہ دے اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جائو۔ سورة نور میں ہے (آیت) ” وان تطیعوہ تھتدوا وما علی الرسول الا البلٰغ المبین “ اگر اللہ کے رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے اور رسول کے ذمے تو احکام الٰہی کو پہنچا دینا ہے یہاں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر ہے اور سورة نساء میں (آیت) ” اولی الامر منکم “ بھی آیا ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کے بعد حاکم وقت یا امیر لشکر کی اطاعت بھی کرو۔ البتہ امیر کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت کے تابع ہے اگر امیر معروف بات کا حکم دیگا تو اس کی اطاعت ہوگی ورنہ نہیں ، غلط بات کا حکم دے تو فریاما ” فلا سمع ولا طاعہ “ نہ اس کی بات سنی جائے گی اور نہ مانی جائیگی۔ جائز کام میں ہر حالت میں فرمانبرداری ہوگی خواہ کتنے ہی ناخوشگوار کیوں نہ ہوں اگر اطاعت ہوگی تو تنظیم بھی ہوگا جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تنظیم بہت بڑا اصول ہے اور تنظیم اللہ ، رسول اور امیر کی اطاعت سے پیدا ہوتی ہے۔ جھگڑے کی ممانعت : آج کے درس کا پانچواں اصول یہ بیان فرمایا (آیت) ” ولاتنازعوا “ آپس میں جھگڑا تنازعہ نہ کرو اتفاق و اتحاد قائم کرو کیونکہ اتحاد کامیابی کا ذریعہ ہے ، البتہ اتفاق و اتحاد انہی اصولوں پر ہوگا جو پہلے بیان ہوچکے ہیں کسی غلط بات پر اتحاد کا کچھ مطلب نہیں کفار کا ساتھ اتھاد کیسے ہو سکتا ہے وہاں تو معاملہ بالکل صاف (آیت) ” لا اعبدما تعبدون “ میں ان کی عبادت نہیں کرسکتا جن کی تم کرتے ہو ان کا تو نقطہ نگاہ ہی الگ ہے ، آپس کے تنازعہ کے متعلق قرآن پاک میں یہ اصول بھی موجود ہے (آیت) ” فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول “ (النسائ) ایسے تنازعہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو ۔ ان کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دو ۔ اور باہمی جھگڑے کو ختم کر دو ۔ فرمایا اگر جھگڑا کرو گے (آیت) ” فتفشلوا “ تو بزدل بن جائو گے ، کمزور ہو جائو گے (آیت) ” وتذھب ریحکم “ اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ تمہاری سلطنت ختم ہو جائیگی یعنی (آیت) ” تذھب دولتکم “ حکومت چلی جائیگی اور تم اغیار سے مغلوب ہو جائو گے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی سلطنتیں محض آپ کے جھگڑے کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔ سپین اور کابل کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ فلسطنیوں کے ساتھ کیا ہوا جب اختلافات پیدا ہوئے تو ہوا اکھڑ گئی۔ پھر کسی قوم نے سپین پر قبضہ کرلیا اور کوئی قوم برصغیر پر مسلط ہوگئی۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنے دور میں چار مسلمان بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے جو آپ کے ” سیاسی مکتوبات “ میں موجود ہیں آپ نے لکھا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم آپس میں لڑتے جھگڑتے ہو جب کہ انگریز اوپر چھا رہا ہے انہوں نے اس نصیحت سے کچھ اثر نہ لیاجس کا نتیجہ ہوا کہ برصغیر پاک وہند کو دو سو سال تک انگریز کی غلامی میں جانا پڑا۔ ایران اور عراق کی باہمی لڑائی آپس کے جھگڑے کی وجہ سے ہے۔ اس کا فائدہ اغیار کو پہنچتا جو پہلے تو اسلحہ فروخت کرتے رہتے ہیں اور پھر جب متحارب ملک بالکل کمزور ہوجاتے ہیں تو ان پر قابض ہوجاتے ہیں امریکہ ، روس ، یہودی اور اشتراکی ممالک اسی دائو میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو وہ بزور قبضہ کرلیں۔ تو فرمایا آپس میں جھگڑا نہ کرو رنہ تم کمزور ہو جائو گے ، تمہاری ہوا کھڑ جائیگی اور تم غلام بن کر رہ جائو گے۔ یہ پانچواں اصول ہوگیا۔ صبر کا دامن : چھٹی بات یہ فرمائی (آیت) ” واصبروا “ صبر کا دامن تھام لو ۔ جہاد بڑا مشکل کا م ہے یہ سفر تمام سفروں سے مشکل ہے کیونکہ اس سفر میں مال اور جان کی بازی لگانا پڑتی ہے۔ جہاد کا مقصد صبر کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے صبر ہمارے دین اور ملت ابراہیمیہ کا اہم اصول ہے اللہ کا ذکر ، اسکی واحدانیت کو ماننا ، تعلق باللہ کا قیام ، نماز کی ادائیگی ، شعائر اللہ کی تعظیم اور صبر ہماری ملت کے اہم ترین اصول ہیں ۔ عبادت و ریاضت اور مشکلات میں صبر کرنا ، تکالیف کو برداشت کرنا بہت بڑا اصول ہے۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ میں یہ تمام صفات پائی جاتی تھیں حضور ﷺ کی بعثت سے لے کر پچاس سال تک مسلمان آدھی دنیا پر چھا چکے تھے حتی کہ مسلمانوں سے ٹکر لینے والی کوئی طاقت باقی نہیں رہ گئی تھی یہ صبر اور دیگر اہم اصولوں کا نتیجہ تھا۔ فرمایا اگر صبر کرو گے ، تو یاد رکھو ! (آیت) ” ان اللہ مع الصبرین “ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اس کی تائید و نصرت ہمیشہ صابرین کے ساتھ ہوتی ہے بہرحال فرمایا کہ دین کے بتلائے ہوئے ان اصولوں پر کاربند ہوگئے تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی اور اگر آپس کے جھگڑے تنازعے کا شکار بن گئے تو نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا یہ چھ اصول بیان ہوگئے ساتواں اصول جو نیت اور اخلاص سے متعلق ہے اگلی دو آیتوں میں بیان ہوگا۔
Top