Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے دوں اور تمہیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔
ۧيٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ۔۔ : نبی کریم ﷺ ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور مال غنیمت میں سے خمس کا اختیار رکھنے کے باوجود سب کچھ ضرورت مندوں پر خرچ کردیتے۔ نتیجہ اس کا گھر میں تنگی و ترشی کے ساتھ گزارا تھا۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : (مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَیَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي ﷺ و أصحابہ۔۔ : 6454 ] ”محمد ﷺ کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہوگئے۔“ عائشہ ؓ ہی نے بیان فرمایا : (مَا أَکَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ أَکْلَتَیْنِ فِيْ یَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاھُمَا تَمْرٌ) [ بخاري، الرقاق، کیف کان عیش النبي ﷺ۔۔ : 6455 ] ”محمد ﷺ کے گھر والوں نے کسی دن دو دفعہ کھانا نہیں کھایا، مگر ان میں سے ایک دفعہ صرف کھجور ہوتی تھی۔“ عائشہ ؓ نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا : (ابْنَ أُخْتِيْ ! إِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْہِلاَلِ ثَلاَثَۃَ أَہِلَّۃٍ فِيْ شَہْرَیْنِ ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِيْ أَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ مَا کَانَ یُعِیْشُکُمْ ؟ قَالَتِ الْأَسْوَدَان التَّمْرُ وَ الْمَاءُ إِلاَّ أَنَّہُ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ جِیْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَہُمْ مَنَاءِحُ ، وَکَانُوْا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَبْیَاتِہِمْ ، فَیَسْقِیْنَاہُ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي ﷺ۔۔ : 6459 ] ”بھانجے ! ہم چاند دیکھتے تھے، دو مہینوں میں تین چاند، اس حال میں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آگ نہیں جلی ہوتی تھی۔“ میں نے کہا : ”پھر تمہیں کیا چیز زندہ رکھتی تھی ؟“ کہا : ”دو سیاہ چیزیں، کھجور اور پانی، مگر رسول اللہ ﷺ کے انصار میں سے کچھ پڑوسی تھے جن کے پا س دودھ والے جانور تھے اور وہ اپنے گھروں سے (کچھ دودھ) رسول اللہ ﷺ کو بطور تحفہ دے دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں وہ پلا دیتے۔“ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَبِیْتُ اللَّیَالِيَ الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا وَ أَھْلُہُ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي ﷺ و أھلہ : 2360، وقال الألبانی حسن ] ”رسول اللہ ﷺ کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ ﷺ کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔“ عائشہ ؓ نے آپ ﷺ کے بستر کے متعلق بتایا : (کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ ، وَحَشْوُہُ مِنْ لِیْفٍ) [ بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي ﷺ۔۔ : 6456 ] ”رسول اللہ ﷺ کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔“ لطف یہ کہ رسول اللہ ﷺ اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کرلیا تھا۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا) [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ : 1055 ] ”اے اللہ ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔“ انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَللّٰہُمَّ أَحْیِنِيْ مِسْکِیْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ لِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ؟ قَالَ إِنَّھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِھِمْ بِأَرْبَعِیْنَ خَرِیْفًا) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین۔۔ : 2352 ] ”اے اللہ ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔“ عائشہ ؓ نے پوچھا : ”یا رسول اللہ ! یہ کیوں ؟“ آپ نے فرمایا : ”وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (40) سال پہلے جائیں گے۔“ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ : بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ ﷺ کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھالی کہ میں ایک ماہ تک تمہارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : 226، 227) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ ﷺ کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر ؓ کو اجازت مل گئی، وہ اندر آگئے، پھر عمر ؓ اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو پایا کہ آپ ﷺ بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ ﷺ کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : ”میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ ﷺ کو ہنساؤں گا۔“ چناچہ وہ کہنے لگے : ”یا رسول اللہ ! کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔“ رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور فرمانے لگے : ”یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔“ تو ابوبکر ؓ عائشہ ؓ کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور عمر ؓ حفصہ ؓ کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ ﷺ سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں : ”اللہ کی قسم ! ہم کبھی رسول اللہ ﷺ سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ ﷺ کے پاس نہ ہو۔“ پھر آپ ﷺ ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی : (یٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) [ الأحزاب : 28 ] [ مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ۔۔ : 1475 ] اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا : صحیح بخاری میں عمر ؓ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ ؓ کا عائشہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورة تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ ﷺ عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا : ”آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔“ نبی ﷺ نے فرمایا : ”یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔“ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ ؓ نے کہا : ”پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا، فرمایا : ”میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کرلو۔“ عائشہ ؓ نے کہا : ”میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ ﷺ سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔“ پھر آپ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ۔۔ اجرا عظیما) [ الأحزاب : 28، 29 ] میں نے کہا : ”کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔“ پھر آپ ﷺ نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ ؓ نے کہی تھی۔ [ بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ۔۔ : 2468 ] 3 ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (9) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں : عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ ؓ اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث ؓ۔ 3 عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ”ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ ﷺ نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔“ [ بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ۔۔ : 5262 ] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ : ”تَعَالَیْنَ“ (آؤ) ”عَلَا یَعْلُوْ“ سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے ”تَعَالَ“ (آؤ) استعمال ہونے لگا۔ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کرلو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمہارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمہیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے ”متعہ طلاق“ کہتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ : 236 تا 241) اور تمہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کردیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
Top