Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 35
اِ۟لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ؕ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑا کرتے ہیں فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں میں بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ : بغیر کسی دلیل اَتٰىهُمْ ۭ : آئی ان کے پاس كَبُرَ مَقْتًا : سخت ناپسند عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَعِنْدَ : اور نزدیک الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے جو اٰمَنُوْا ۭ : ایمان لائے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ اللّٰهُ : مہر لگادیتا ہے اللہ عَلٰي : پر كُلِّ قَلْبِ : ہر دل مُتَكَبِّرٍ : مغرور جَبَّارٍ : سرکش
وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں، بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، بڑی ناراضی کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے۔ اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔
(1) الذین یجادلون فی ایت اللہ …: یہ ان لوگوں کی تیسری صفت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا، بلکہ انہیں ضلالت میں مبتلا کردیتا ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی واضح اور روشن آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور انہیں سعادت مندی کے ساتھ تسلیم کرنے کے بجائے انہیں ٹھکرانے کے لئے صحیح عقل یا نقل سے آنے والی کسی دلیل کے بغیر جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں۔ فرمایا، ان کا کل سرمایہ شور و غوغا، استہزاء اور ہٹ دھرمی ہوتا ہے۔ یہ تین عیوب جن لوگوں میں پیدا ہوجاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بھی گمراہی کے گڑھے میں پھینک یدتا ہے۔ (2) کبر مقتا عند اللہ و عند الذین امنوا :”کبر“ کا فاعل وہ جدال ہے جو ”یجادلون“ کے ضمن میں بطور مصدر موجود ہے،”مقتاً“ تمیز ہے۔ یعنی بلا دلیل جھگڑا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اور ایمان والوں کے ہاں بھی سخت ناپسندیدگی ، نفرت اور ناراض ہونے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ (3) بلا دلیل جھگڑا اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے نزدیک سخت ناپسندیدہ بتلانے میں اہل ایمان کو تلقین ہے کہ ایسے جھگڑے سے اجتناب کریں جیسا کہ فرمایا :(واذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ) (القصص : 55)”اور جب وہ لغوبات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں۔“ اور فرمایا :(واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلما) (الفرقان : 63)”اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔“ اور فرمایا :(واذا مروا بالغومروا کراماً) (الفرقان : 82) ”اور جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔“ ناحق جھگڑے سے اپنی شدید نفرت کے ذدکر کے ساتھ ایمان والوں کی شدید نفرت کا تذکرہ بھی فرمایا، اس سے ایمان والوں کی شان کی عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ (4) کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار : معلوم ہوتا ہے کہ ”کذلک یضل اللہ من ھو مسرف مرتاب“ سے یہاں تک چند فقرے آل فرعون کے کلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمائے گئے ہیں اور ان میں اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے کے متکبر و جبار کفار کے کفر پر اصرار کا باعث بیان کیا گیا ہے۔ یعنی نبی کریم ﷺ جن لوگوں کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں ان میں سے بھی کوئی شخص جب تکبر اور سرکشطی میں حد سے گزر جاتا ہے اور کوئی صحیح بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو اس کے دل پر اسی طرح مہر لگا دی جاتی ہے جس طرح آل فرعون کے دل پر مہر لگا دی گئی، پھر اس کا کام اسراف (زیادتی) ، ارتیاب (شک) اور جدال بالباطل (ناحق جھگڑا) ہی رہ جاتا ہے، کوئی صحیح بات یا نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی اور ہی اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کی توفیق دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم) (الصف : 5) ”پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔“ اور فرمایا :(ونقلب افدتھم وابصارھم کمالو یو منوا بہ اول مزۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون) (الانعام : 110)”اور ہم ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو پھیر دیں گے، جیسے وہ اس پر پہلی بار ایمان نہیں لائے اور انہیں چھوڑ دیں گے، اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں گے۔“
Top