Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 35
اِ۟لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ؕ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑا کرتے ہیں فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں میں بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ : بغیر کسی دلیل اَتٰىهُمْ ۭ : آئی ان کے پاس كَبُرَ مَقْتًا : سخت ناپسند عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَعِنْدَ : اور نزدیک الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے جو اٰمَنُوْا ۭ : ایمان لائے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ اللّٰهُ : مہر لگادیتا ہے اللہ عَلٰي : پر كُلِّ قَلْبِ : ہر دل مُتَكَبِّرٍ : مغرور جَبَّارٍ : سرکش
جو اللہ کی آیات میں بغیر دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو جھگڑے بازی کرتے ہیں اللہ کے نزدیک اور اہل ایمان کے نزدیک یہ بڑے بغض کی چیز ہے اسی طرح اللہ مہر لگا دیتا ہے ہر متکبر جبار کے دل پر۔
مسرف و مرتاب کا گمراہ ہونا اور ہر متکبر جبار کے دل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگ جانا مرد مومن کا سلسلہ کلام جاری ہے اس نے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو ڈرایا اور یاد دلایا کہ دیکھو تم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلا کر گزشتہ امتیں ہلاک ہوچکی ہیں اس کے بعد ان سے خصوصی طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بعثت کا تذکرہ کیا جو اہل مصر کی طرف مبعوث ہوئے تھے انہیں یاد دلایا کہ دیکھو حضرت یوسف (علیہ السلام) دلائل کے ساتھ تمہارے پاس آئے لیکن تم نے ان کو بھی جھٹلایا اور انہوں نے جو دعوت پیش کی اور اللہ تعالیٰ کے احکام بتلائے تم اس میں برابر شک کرتے رہے تم نے یہ تسلیم نہ کیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کی دعوت حق ہے اور تم نے نہ صرف یہ کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کیا بلکہ ان کی وفات ہوجانے پر یوں کہہ دیا کہ اگر بالفرض رسول تھے تو اب ان کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ کے رسول کی رسالت کا انکاری ہونا اور اپنی طرف سے یہ تجویز کردینا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی بھی رسول نہ بھیجے گا عناد در عناد اور بغاوت در بغاوت ہے۔ جو لوگ بغاوت اور سرکشی میں حد سے بڑھ جائیں اور ان کا مزاج شک کرنے کا بن جائے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ گمراہ فرما دیتا ہے ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ بلا دلیل اللہ کی آیات میں جھگڑے کرتے رہیں ان کی یہ جھگڑے بازی اللہ کے نزدیک اور اہل ایمان کے نزدیک بہت زیادہ بغض اور نفرت کی چیز ہے۔ مرد مومن نے مزید کہا کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے اب تمہیں حق قبول کرنا نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں پر مہر لگا دی ہے وہ اسی طرح ہر متکبر مغرور اور جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ایسے شخص کے دل میں ذرا بھی حق قبول کرنے کی طرف جھکاؤ نہیں رہتا، اس میں حق سمجھنے اور حق قبول کرنے کی بالکل ہی گنجائش نہیں رہتی۔ فائدہ : صاحب روح المعانی نے اول تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے نام سے ساتھ یعقوب لکھ دیا ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) جو کنعان سے آکر مصر میں صاحب اقتدار ہوگئے تھے اور ان کے سامنے ہی ان کے والدین اور بھائی تمام اہل و عیال کے ساتھ مصر میں آکر بس گئے تھے انہیں یوسف (علیہ السلام) کو مراد لیا ہے اور (جَاءَ کُمْ ) میں جو ضمیر خطاب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے اہل مصر کے آباؤ اجداد مراد ہیں پھر ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت بالا میں جس یوسف کا ذکر ہے وہ حضرت یوسف الصدیق (علیہ السلام) کے پوتے تھے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبی بنا کر بھیجا تھا انہوں نے بھی مصر میں بیس سال قیام کیا اور یہ لوگ ان کی دعوت میں شک ہی کرتے رہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top