Mufradat-ul-Quran - Al-Ghaafir : 35
اِ۟لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ؕ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑا کرتے ہیں فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں میں بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ : بغیر کسی دلیل اَتٰىهُمْ ۭ : آئی ان کے پاس كَبُرَ مَقْتًا : سخت ناپسند عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَعِنْدَ : اور نزدیک الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے جو اٰمَنُوْا ۭ : ایمان لائے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ اللّٰهُ : مہر لگادیتا ہے اللہ عَلٰي : پر كُلِّ قَلْبِ : ہر دل مُتَكَبِّرٍ : مغرور جَبَّارٍ : سرکش
جو لوگ بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل آئی ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں، خدا کے نزدیک اور مومنوں کے نزدیک یہ جھگڑا سخت ناپسند ہے، اسی طرح خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے
الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىہُمْ۝ 0 ۭ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ 0 ۭ كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللہُ عَلٰي كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ۝ 35 جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] مقت المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء/ 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ طبع الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] ، ( ط ب ع ) الطبع کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون/ 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ تَّكَبُّرُ والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] . والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله : سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر . ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب، التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔ جبر أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ( ج ب ر ) الجبر اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔
Top