Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 47
وَ اِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ
وَاِذْ : اور جب يَتَحَآجُّوْنَ : وہ باہم جھگڑیں گے فِي النَّارِ : آگ (جہنم) میں فَيَقُوْلُ : تو کہیں گے الضُّعَفٰٓؤُا : کمزور لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جو اسْتَكْبَرُوْٓا : وہ بڑے بنتے تھے اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے لَكُمْ : تمہارے تَبَعًا : تابع فَهَلْ : تو کیا اَنْتُمْ : تم مُّغْنُوْنَ : دور کردوگے عَنَّا : ہم سے نَصِيْبًا : کچھ حصہ مِّنَ النَّارِ : آگ کا
اور جب وہ آگ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ بیشک ہم تمہارے ہی پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹانے والے ہو ؟
(1) واذ یتخآجون فی النار فیقول الصعفوآ…: فرعون اور آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چلنے والوں کا انجام آگ اور قیامت کے دن ”اشد العذاب“ بیان فرمانے کے بعد بتایا کہ صرف فرعون ہی نہیں، ہر متکبر اور اس کے اندھا دھند پیرو کار جہنم میں جائیں (ایک دوسرے سے جھگڑیں گے) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ کمزور لوگوں کا بڑا بننے والوں سے کہنا :(انا کنا لکم تبعاً فھل انتم معنون عنا نصیباً من النار) (کہ ہم دنیا میں تمہارے تابع تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاؤ گے ؟) ان سے آگ ہٹانے کی درخواست کے لئے نہیں ہوگا، بلکہ انہیں ذلیل کرنے کے لئے اور اپنے دل کا ابال نکالنے کے لئے ہوگا۔ ان بڑے بننے والوں کے پاس بھی یہ کہنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہم خود آگ میں ہیں، تمہارے کس کام آسکتے ہیں ! ؟ اس پر وہ ایک دوسرے کو لعنت کریں گے، مگر کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جھگڑے کا کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (166) ، 167) ، سورة ابراہیم (21، 22) ، سورة اعراف (38، 39) اور سورة سبا (31 تا 33)۔ (2) ان اللہ قد حکم بین العباد : یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نازل ہوچکا، اب تم اپنی سزا بھگتو ہم اپنی بھگت رہے ہیں، اس عذاب میں کمی بیشی ہمارے بس میں نہیں ہے۔
Top