Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں شَاعِرٌ : ایک شاعر ہے نَّتَرَبَّصُ : ہم انتظار کر رہے ہیں بِهٖ : اس کے بارے میں رَيْبَ : حوادث کا الْمَنُوْنِ : موت کے۔ زمانے کے
یا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس پر ہم زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں ؟
(ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون :”نربص یتربص“ (تفغل) ”آنے والے کسی شر یا خیر کا انتظار کرنا۔“”المنون“”من یمن منا“ (ن) کا معنی ”قطع کرنا“ ہے۔ ”المنون“ بروزن ”فعول“ (کاٹنے والا) موت کو کہتے ہیں، کیونکہ وہ زندگی کی رسی کو کاٹ دیتی ہے اور زمانے کو بھی، کیونکہ وہ بھی زندگی کے ایام کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ ”ریب“ کا اصل معنی شک اور بےچینی ہے، لیکن جب اس کا استعمال زمانے کے ساتھ ہو تو مراد زمانے کے حوادث ہوتے ہیں، کیونکہ وہ آدمی کو بےچین رکھتے ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انکار اور تعجب کے انداز میں ان مشرکین کی جہالت کی باتوں کا پندرہ (15) دفعہ لفظ ”ام“ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ہر ”ام“ کے بعد سوال کرتے ہوئے ان پر الزام قائم کیا ہے، جس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں۔ چناچہ اس آیت میں فرمایا :(ام یقولون شاعر)”یا وہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔“ کفار یہ قول نقل فرما کر تردید کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ قرآن مجید کا وجود ہی اس کی تردید کے لئے کافی ہے۔ البتہ ان کی اس بات کا جواب دیا ہے ہے کہ ہم اس پر زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں کہ اس پر کوئی آفت آجائے، یا اس کی موت کا وقت آجائے، جس کے ساتھ اس کی دعوت کا سلسلہ ختم ہوجائے۔
Top