Ashraf-ul-Hawashi - At-Tur : 30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں شَاعِرٌ : ایک شاعر ہے نَّتَرَبَّصُ : ہم انتظار کر رہے ہیں بِهٖ : اس کے بارے میں رَيْبَ : حوادث کا الْمَنُوْنِ : موت کے۔ زمانے کے
کیا کافر کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے (اور) ہم اس کے حق میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں
(52:30) ام یقولون شاعر : ام حرف اضراب بل کے معنی میں ہے یعنی وہ رسول کریم ﷺ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے ۔ جس کی نفی خدا تعالیٰ نے ان الفاظ میں کردی۔ فما انت بنعمۃ ربک بکاھن ولا مجنون۔ بلکہ وہ مزید برآں آپ کو شاعر بھی کہتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہم اس کے حق میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں۔ یعنی حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ شاعر ہیں جس طرح اور شاعر زہیر، نابغہ وغیرہ مرگئے اور ان کے ساتھ ان کا کلام بھی مرگیا۔ اور ان کے بہی خواہ اور ثنا خوانان بھی ختم ہوگئے۔ یہ بھی مرجائیں گے اور ان کے ساتھ ان کا کلام اور ان کے ساتھ ختم ہوجائیں گے : ضمیر جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ نتربص۔ مضارع جمع متکلم تربص (تفعیل) مصدر بمعنی انتظار کرنا۔ ہم انتظار کرتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ والمطلقت یتربصن (2:228) مطلقہ عورتوں کو چاہیے کہ انتظار کریں۔ ریب المنون : مضاف مضاف الیہ مل کر نتربص کا مفعول۔ ریب باب ضرب سے مصدر ہے۔ اس کے معنی شک اور گمان میں ڈالنے کے ہیں۔ ریب استعمال اس شک یا گمان کے متعلق ہوتا ہے جس کی حقیقت بعد میں اس کے برخلاف منکشف ہوجائے۔ اور چونکہ زمانہ کی گردشوں کی تعین اوقات میں بھی شک ہوتا ہے کہ خدا جانے کب گردش کا وقت آجائے۔ اس لئے جب زمانہ کے ساتھ ریب کا استعمال ہوگا تو گردش کے معنی ہوں گے۔ المنون : من یمن من ومنہ (باب نصر) سے ہے جس کے معنی رسی کاٹنا ہیں اسی کاٹنا کی نسبت سے موت کو بھی المنون کہتے ہیں کیونکہ یہ عمر کو قطع کرتی ہے۔ اسی لحاظ سے من بمعنی زمانہ بھی ہے کہ تعداد ایام کو کم اور زندگی کو قطع کرتا ہے۔ ریب کا استعمال جب زمانہ کے ساتھ ہوگا تو مراد گردش زمانہ یا حوادث زمانہ ہوں گے اور زندگی کا سب سے بڑا حادثہ یا گردش انسان کی موت ہے۔ حادثہ موت میں ریب یعنی شک سے مراد یہ نہیں کہ موت کے وقوع میں شک و شبہ ہے بلکہ اس لحاظ سے ریب کہا جاتا ہے کہ اس کے تعین اوقات میں انسان متردد رہتا ہے کہ خدا جانے کب اس کا وقت آجائے۔ لہٰذا ریب المنون کے معنی یہاں حادثہ موت کے ہیں۔ یعنی کافر کہتے ہیں کہ یہ (رسول کریم ﷺ ) ایک شاعر ہیں ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو دوسرے شعراء کا ہوتا ہے یعنی موت کے بعد لوگ ان کو اور ان کے کلام کو بھول جائیں گے۔
Top