Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
بلاشبہ جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے مکر کیا سو اللہ نے ان کا بنایا ہوا گھر بنیادوں سے ڈھا دیا، پھر اوپر سے ان پر چھت آپڑی، اور ان پر اس طرح عذاب آگیا کہ انہیں خیال بھی نہ تھا،
معاندین سابقین کے عذاب کا تذکرہ، قیامت کے دن کافروں کی رسوائی اور بدحالی، متکبرین کا برا ٹھکانہ ہے مشرکین مکہ جو قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اسلام اور داعی اسلام ﷺ کے خلاف طرح طرح کی تدبیریں سوچتے تھے اور آپس میں مشورے کرتے تھے۔ (وَ قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) میں ان لوگوں کی مکاری کا تذکرہ فرمایا جو پہلی امتوں میں گزرے ہیں، یہ لوگ حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کا کیا کرایا سب برباد کردیا جیسے کوئی شخص عمارت بنائے اور پھر اس کی بنیادیں اور ستون گرپڑیں اور پھر اوپر سے چھت گرجائے، ان کی بنائی ہوئی تعمیر بھی برباد ہوئی اور خود بھی اس میں دب کر رہ گئے اپنے مقاصد میں ناکام ہوئے اور اس طرح ان پر عذاب آگیا جس کا انہیں خیال بھی نہ تھا، آیت کریمہ سے عام اقوام مراد لی جائیں تو کسی خاص قوم یا کسی خاص شخص کی تعیین کی ضرورت نہیں رہتی کثیر تعداد میں ایسی قومیں گزری ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی تدبیریں ناکام ہوئیں اور ان پر عذاب آیا اور برباد و ہلاک ہوئے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں۔ واختار جماعۃ بناۂ علی التمثیل حسبما سمعت وعلیہ فالمراد علی المختار من الذین کفروا من قبل ما یشمل جمیع الماکرین الذین ھدم علیھم بنیانھم وسقط فی ایدیھم ایک جماعت نے اس کو ترجیح دی ہے کہ اس کی بناء تمثیل پر ہے پس مختار قول کے مطابق اس سے مراد سابقہ اقوام کے کافر ہیں جو ان تمام مکاروں کو شامل ہے جن کی تعمیریں خود ان کے اپنے اوپر گرپڑیں اور انہیں کے ہاتھوں گریں۔ (ص 136 ج 14) اور حافظ ابن کثیر نے بھی (ص 566 ج 2) یہ بات لکھی ہے حیث قال ھذا من باب المثل بالابطال ما صنعتہ ھولاء الذین کفروا باللّٰہ واشرکوا فی عبادتہ جو یہ فرمایا یہ ان کافروں کی ان مکاریوں کے ابطال کے لیے ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا کفر کیا اور دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کیا۔ لیکن خود صاحب روح المعانی اور حافظ ابن کثیر نے اور علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ (وَ قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) سے نمرود بن کنعان مراد ہے جس نے شہر بابل میں ایک محل بنایا تھا جس کی اونچائی پانچ ہزار ہاتھ اور چوڑائی تین ہزار ہاتھ تھی اس کا مقصد یہ تھا کہ آسمان پر چڑھے اور وہاں کے حالات معلوم کرکے آسمان والوں سے قتال کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیج دی جس نے اس محل کو گرا دیا اور اس کی چھت نمرود پر اور اس کے اتباع پر گر پڑی جس سے وہ ہلاک ہوگئے۔ صاحب روح المعانی نے ایک قول یہ بھی لکھا ہے کہ خود نمرود اس وقت ہلاک نہیں ہوا تھا بلکہ محل کی بربادی کے بعد زندہ رہا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ایک مچھر کے ذریعے ہلاک فرما دیا جو اس کے دماغ میں پہنچ گیا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے بخت نصر مراد ہے اس نے بھی مکاری کی تھی اور اونچا محل بنایا تھا پھر وہ محل برباد ہوگیا یہ سب اسرائیلی روایات ہیں اگر محل بنانے والی بات درست ہو تو یہ ایسا ہی ہے جیسے فرعون نے اپنے وزیر سے کہا تھا (یَاھَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ اَسْبَاب السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِِلٰی اِِلٰہِ مُوْسٰی وَاِِنِّیْ لاََظُنُّہٗ کَاذِبًا) (اے ہامان بنا دے میرے لیے ایک عمارت شاید میں آسمان پر جانے کی راہوں تک پہنچ جاؤ پھر موسیٰ کے معبود کو دیکھوں اور میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں) فرعون کی تدبیریں بھی فیل ہوئیں، قارون بھی اپنے گھر سمیت زمین میں دھنسایا گیا عاد وثمود بھی برباد ہوئے اور دنیا میں عذاب چکھ لیا۔
Top