Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لئے ) ایسے ہی مکاریاں کرچکے ہیں ، تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا۔
آیت نمبر 26 تا 29 قد مکرالذین من قبلھم (16 : 26) “ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ (حق کو نیچا دکھانے کے لیے ) ایسے ہی مکاریاں کرچکے ہیں ”۔ قرآن کریم ان کے پروپیگنڈے کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کرتا ہے جس کی بنیادیں بھی ہیں اور ستون بھی اور چھت بھی ہے۔ اس میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان کا پروپیگنڈا بڑ اگہرا ، مضبوط ، پختہ اور ضخیم تھا لیکن اللہ کی قوت اور تدبیر کے مقابلے میں یہ کامیاب نہ ہوا۔ فاقی اللہ بنیانھم من القواعد فخر علیھم الشقف من فوقھم (16 : 26) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی ”۔ یہ ایک ایسا منظر اور ایسی تصویر کشی ہے جس سے مکمل تباہی کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ تباہی اوپر سے بھی آتی ہے اور نیچے سے بھی آتی ہے کیونکہ جن بنیادوں پر یہ عمارت کھڑی تھی وہی گر گئیں اور اوپر سے چھت ان پر اس طرح آگری کہ وہ دب گئے اور دفن ہو کر رہ گئے۔ واتھم العذاب من حیث لا یشعرون (16 : 26) “ اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کے ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ جس عمارت کو انہوں نے نہایت ہی پختہ کر کے تعمیر کیا تھا اور ان کو پورا بھروسہ تھا کہ وہ اس میں پناہ لیں گے وہی ان کا مقبرہ بن گئی اور وہ ان پر ایسی ہلاکت لائی کہ اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ان پر تباہی آئی۔ وہ عمارت انہوں نے اس قدر مضبوط بنائی تھی کہ اس کی کسی جہت سے بھی ان کو تباہی کا ڈر نہ تھا۔ تبایہ و بربادی کا یہ ایک مکمل منظر ہے۔ یہ مکر کرنے والوں کے مکر اور مخالفانہ تدابیر کرنے والوں کی تدابیر کے ساتھ معنی خیز مذاق ہے۔ جو لوگ تحریک اسلامی کی راہ روکنے کے لئے مکر کرتے ہیں یہ سوچتے ہیں کہ ان کے مکر کا کوئی توڑ نہ ہوگا اور یہ کہ ان کی تدابیر ناکام نہ ہوں گی حالانکہ اللہ ان کی تمام مکاریوں اور تدابیر کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ یہ منظر قریش کے دور کے بھی دیکھا گیا ۔ ان سے پہلے بھی تاریخ نے بھی بارہا دیکھا اور بعد کے ادوار میں بھی دیکھا گیا۔ دعوت اسلامی آج تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ مکر کرنے والے جس قدر چاہیں تدابیر سوچیں ، جس قدر چاہیں ، مکاریاں کریں۔ تحریک اسلامی کے کارکن ان تاریخی مناظر کو بار بار پڑھ کر دیکھتے ہیں جس طرح قرآن کریم نے منظر کشی فرمائی۔ فاتی اللہ بنیانھم ۔۔۔۔۔ لا یشعرون (16 : 26) “ تو دیکھ لو کہ اللہ نے ان کے مکر کی عمارت جڑ سے اکھاڑ پھینکی اور اس کی چھت اوپر سے ان کے سر پر آرہی اور ایسے رخ سے ان پر عذاب آیا جدھر سے اس کے آنے کا ان کو گمان تک نہ تھا ”۔ یہ تو ان کا انجام ہوا اس دنیا میں اور اس کرۂ ارض پر۔ لیکن تم ثم یوم القیمۃ یخزیھم ویقول این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (16 : 27) “ پھر قیامت کے روز اللہ انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان سے کہے گا اب بتاؤ کہاں ہیں وہ شریک جن کے لئے تم اہل حق سے جھگڑے کیا کرتے تھے ”۔ قرآن کریم یہاں مشاہد قیامت سے ایک منظر تصویر کشی کر رہا ہے۔ یہ مکار مستکبرین اس منظر میں نہایت ہی شرمندگی کی حالت میں ہیں۔ ان کا تکبر کافور ہوچکا ہے اور ان کی مکاریوں کے دن لد گئے ہیں۔ اب وہ اس ذات کبریا کے دربار میں ہیں جو تخلیق کا بھی مالک ہے اور فیصلے بھی اب اسی کے چلتے ہیں۔ اللہ اب ان کو مزید شرمندہ اور خوار کرنے کے لئے سوال کرتے ہیں۔ این شرکاءی الذین کنتم تشاقون فیھم (16 : 27) “ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے رہتے تھے ”۔ جن جعلی شریکوں کے متعلق تم رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان سے جھگڑتے تھے وہ کہاں تھے۔ جو لوگ عقیدۂ توحید کے قائل تھے تم ان سے مناظرے کیا کرتے تھے۔ یہاں یہ لوگ گم سم کھڑے ہیں۔ شرمندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن فرشتے ، رسول ، اہل علم اور اہل ایمان کو اب بولنے کی اجازت ہوگی کیونکہ یہ لوگ تو اب کامیاب ہوچکے ہوں گے لہٰذا بولنا اب ان کا حق ہوگا۔ قال الذین ۔۔۔۔۔ علی الکفرین (16 : 27) “ جن لوگوں کو دنیا میں علم حاصل تھا وہ کہیں گے ، آج رسوائی اور بدبختی ہے کافروں کے لئے ”۔ فی الواقعہ آج رسوائی اور بدبختی صرف کافروں کے لئے ہے۔ الذین تتوفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم (16 : 28) “ انہی کافروں کے لئے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ”۔ اب قرآن کریم ان لوگوں کو ایک قدم پیچھے لے جاتا ہے ، قیامت سے قبل ان لوگوں کی موت کا وقت قریب ہے ، ملائکہ ان کی روح قبض کرتے ہیں ، ان کے جسم سے ان کی روح کو نہایت ہی کرختگی کے ساتھ کھینچ کر نکالا جاتا ہے ، اس لیے کہ یہ لوگ ایمان و یقین سے محروم تھے۔ انہوں نے اپنی روحی کو ہلاکت میں ڈال دیا تھا۔ پھر ان کی جانیں آگ اور دائمی کے عذاب کے حوالے ہوگئیں۔ جب ان لوگوں کی موت قریب آئی اور ابھی تو زمین میں یہ جھوٹ ، مکر اور فریب کا کاروبار کر رہے تھے تودیکھو کہ یہ کس قدر ساؤ ہوگئے ہیں۔ فالقوا السلم ما کنا نعمل من سوء (16 : 28) “ تو یہ لوگ فوراً ڈگیں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں “ ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ مستکبرین اب تو سلامتی کے پیغامبر بن گئے ہیں ، وہ تو اس سر تسلیم خم کرنے اور اطاعت کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ یہ بھی ان کا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ ان کے دنیاوی سلسلہ جھوٹ کا حصہ ہے۔ یہ نہایت ہی عاجزی سے کہتے ہیں۔ ما کنا نعمل من سوء (16 : 28) “ ہم تو قصور نہیں کر رہے تھے ”۔ یہ بھی نہایت ہی شرمساری اور ذلت کا منظر ہے۔ ان مستکبرین کو دیکھو اور ان کی اس حالت کو دیکھو۔ لیکن اللہ کی طرف سے جواب آئے گا “ ہاں ” اور یہ جواب علیم وخبیر کی طرف سے ہوگا۔ بلیٰ ان اللہ علیم بما کنتم تعملون (16 : 28) “ ہاں اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے ”۔ لہٰذا اب یہاں جھوٹ ، مغالطہ اور ملمع کاری نہیں چل سکتی۔ اب ان کے فیصلے اور جزاء کا وقت آتا ہے ۔ یہ متکبرین کی جزاء ہے۔ فادخلوا ابواب ۔۔۔۔۔ المتکبرین (16 : 29) “ اب جاؤ، جہنم کے دروازوں میں گھس جاؤ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے ”۔ پس حقیقت یہ ہے کہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے متکبروں کے لئے ”۔ اب فریق بالمقابل ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے تقویٰ کی راہ اختیار کی۔ یہ لوگ متکبرین اور مستکبرین کے مد مقابل ہیں شروع سے انتہا تک۔
Top