Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آپہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔
قد مکر الذین من قبلھم سے کون مراد ہے (26) قد مکر الذین من قبلھم “ اس سے مراد نمرود بن کنعان ہے اور اس نے آسمان کی طرف چڑھنے کے لیے بابل میں ایک اونچی عمارت بنوائی تھی۔ ابن عباس ؓ اور وہب کا بیان ہے کہ اس عمارت کی اونچائی پانچ ہزار ذراع تھی۔ کعب اور مقاتل کا بیان ہے کہ اس کی بلندی دو فرسخ تھی۔ لیکن تیز آندھی آنے کی وجہ سے وہ سمندر میں جا گری اور اس کا کچھ ان لوگوں پر گرپڑا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے۔ جب ان پر وہ عمارت گری تو وہ اپنی زبان کے ساتھ جزع فرع کرنے لگے اور وہ ایک دوسرے کو تہتر زبانوں میں پکارنے لگے۔ اسی وجہ سے اس کا نام بابل پڑگیا۔ اس سے پہلے ان لوگوں کی زبانیں سر یانی تھیں۔ اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “ ان کے بنائے ہوئے گھر کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ ” فخر علیھم السقف “ اور وہ عمارت ان کے گھروں کی چھتوں پر آگری۔ ” من فوقھم واتاھم العذاب من حیث لا یشعرون “ وہ اپنے امن میں تھے کہ اچانک ان پر عذاب آگیا۔
Top