Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
(اور ان کے مکرو فریب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ) بلاشبہ ان سے پہلے کے (بہت سے) لوگوں نے بھی (حق کو نیچا دکھانے کے لئے طرح طرح کی) مکاریاں کیں، مگر اللہ نے جڑ سے اکھاڑے پھینکا ان (کے مکرو فریب) کی عمارت کو، پھر خود ان ہی پر آگری (ان کی اس عمارت کی) چھت ان کے اوپر سے، اور آپہنچا ان پر (اللہ کا) عذاب جہاں سے ان کو (وہم و) گمان بھی نہ تھا،
46۔ اہل کفر وباطل کی مکاریوں کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی طرح طرح کی مکاریوں سے کام لیا یعنی حق اور اہل حق کے خلاف، سو اہل باطل نے اہل حق کیخلاف ہمیشہ ہر طرح کی مکاریاں کیں ان کا راستہ روکنے کی غرض سے اور ان کی یہ مکاریاں بھی ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جائیں اور اپنی جگہوں سے سرک جائیں جیسا کہ دوسرے مقام ارشاد فرمایا گیا وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال (ابراہیم : 46) سودشمنان حق کی، حق اور اہل کیخلاف ایسی مکاریاں ہمیشہ سے ہی رہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ حق کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ سو اس میں اہل حق کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ وہ دور حاضر کے اہل باطل کی فتنہ سامانیوں کی پرواہ کیے بغیر راہ حق پر گامزن رہیں، بھروسہ ہمیشہ اللہ ہی پر رکھیں اور اس کے ساتھ اپنا ربط وتعلق درس رکھیں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جس طرح آج قریش کے لیڈر اپنے مذموم اغراض و مقاصد کے لئے پیغمبر اسلام اور ان کی دعوت حق کے خلاف طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں اسی طرح ماضی کی کافر قوموں نے بھی اپنے مذموم اغراض و مقاصد کے لئے اپنے دور کے انبیاء ورسل کے خلاف اسی طرح کی چالیں چلیں جس کے نتیجے میں آخر کار وہ قومیں اپنے انجام کو پہنچ کررہی ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 47۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت سب پر حاوی اور محیط : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ان (کے مکروفریب) کی عمارت کو سو ان کی مکاریاں اگرچہ بڑی ہولناک تھیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت سب پر حاوی اور محیط ہے اس کے سامنے ان کی ان مکاریوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی، اس نے اپنے قانون امہال کے مطابق جتنی ان کو مہلت دینا تھی وہ دی مگر آخر کار اس نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ان (کے مکروفریب) کی عمارت کو۔ سو اس طرح وہ حق اور اہل حق کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے، مگر خود حق سے دور اور محروم سے محروم تر ہوگئے، اور شقاوت و بدبختی کی چھاپ ان پر اور پکی اور گہری ہوتی چلی گئی۔ جو کہ سب سے بڑا اور حقیقی و دائمی خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ۔ پس دارومدار ان لوگوں کی چالبازیوں پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے۔ پس اپنا تعلق اور معاملہ ہمیشہ اس قادر مطلق سے صحیح رکھا جائے کہ ہوگا وہی جو اس کو منظور ہوگا وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے اللہ کے رسولوں کے خلاف مکروفریب کے جو جال بنے تھے ان میں وہ خود ہی الجھ کر اور پھنس کر فی النار والسقر ہوگئے۔ اور مکروفریب کی جو عمارتیں انہوں نے حق اور اہل حق کے خلاف کھڑی کی تھی وہ خود انہی پر آگریں۔ اور ان کی سب سازشیں، مکاریاں اور چالیں اکارت گئیں اور وہ حق کا بول بالا ہی رہے والحمد اللہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 48۔ مکاروں کی مکاریاں خود انہی پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخر کار انہی پر آگری ان کے مکروفریب کی چھت ان کے اوپر سے، جس کے نیچے یہ خود آکر اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کررہے۔ اور اس طرح دوسروں کے لئے کھودے جانے والے گڑھے میں وہ خود ہی گر کر اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس طرح وہ لوگ حق اور اہل حق کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے، البتہ خود ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں گر کر اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کررہے اور نور حق کو مٹانے کی بجائے خود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ گئے۔ اور مکروفریب کی جو عمارت انہوں نے حق اور اہل حق کیخلاف بنائی تھی اور جس کو وہ لوگ اپنے طور پر بڑی مضبوط اور نہایت سخت سمجھ رہے تھے۔ وہ اپنی چھت سمیت اوپر سے خود انہی پر آکر رہی۔ اور یہ لوگ " من حفربئرا لاخیہ وقع فیہ " کا مصداق بن کر ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ بن گئے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو بری سازشوں کا نتیجہ خود سازشی عناصر کی ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (ولا یحیق المکرالسیء الا باہلہ) یعنی بری سازش نہیں گھیرتی مگر اس کے بننے والے کو ہی۔ والعیاذ باللہ جل علا۔ 49۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی بےپناہی کا ذکر وبیان۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپہنچا ان پر اللہ کا عذاب وہاں سے جہاں ان کو گمان بھی نہ تھا یعنی وہ عذاب جس کے یہ لوگ اپنے کئے کے باعث مستحق ہوچکے تھے۔ والعیاذ باللہ۔ سو حق اور اہل حق سے عداوت اور دشمنی کا نتیجہ وانجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ اور اس ضمن میں ملنے والی ڈھیل سے کبھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ وہ ڈھیل بہرحال ایک ڈھیل ہوتی ہے۔ جس نے بہرحال ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے۔ سو بڑے ہی خسارے میں ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس مہلت اور ڈھیل پر مست ومگن ہو کر اللہ کے عذاب سے نچنت اور بےفکر ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخاسرون) ۔ (الاعراف : 99) یعنی اللہ کے عذاب سے نڈر اور بےخوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیا ہوتا ہے۔ سو یہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 50۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب بےسان و گمان۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو عذاب وہاں سے آیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا چناچہ قوم وثمود کے لوگ ہوا اور زلزلے وغیرہ سے نیست ونابود ہوگئے۔ نمرود کا مچھر جیسی حقیر مخلوق کے ذریعے کام تمام کردیا گیا (فصدق اللہ القآئل (وما یعلم جنود ربک الا ہو) الایۃ۔ (المدثر : 31) یعنی تمہارے رب کے لشکروں کو اس کے سوا نہ کوئی جانتا ہے اور نہ جان سکتا ہے۔ اور دورحاضر میں بھی اس کے طرح طرح کے مظاہر جگہ جگہ رونما ہوتے رہتے ہیں کہیں تباہ کن زلزلوں کی شکل میں۔ کہیں ہولناک آتش فشاں کی صورت میں اور کہیں کہ ایٹمی تابکاری کے نتیجے میں وغیرہ۔ مگر غفلت کی ماری دنیا ہے کہ وہ کل کی طرح آج بھی اس سے کوئی سبق نہیں لیتی اور ایسے لوگ اس طرح کے واقعات کو کسی طبعی عمل کا نتیجہ قرار دے کر بات آئی گئی کردیتے ہیں۔ اور وہ اس سے درس عبرت لینے کی بجائے الٹا غفلت کی اور گہری نیند میں محو ہوجاتے ہیں جن کے نتیجے میں آکر وہ ہولناک انجام کو پہنچ کررہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top