Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 26
قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ اَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ
قَدْ مَكَرَ : تحقیق مکاری کی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَاَتَى : پس آیا اللّٰهُ : اللہ بُنْيَانَهُمْ : ان کی عمارت مِّنَ : سے الْقَوَاعِدِ : بنیاد (جمع) فَخَرَّ : پس گر پڑی عَلَيْهِمُ : ان پر السَّقْفُ : چھت مِنْ : سے فَوْقِهِمْ : ان کے اوپر وَاَتٰىهُمُ : اور آیا ان پر الْعَذَابُ : عذاب مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں سے لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خیال نہ تھا
ان سے پہلے لوگوں نے بھی (ایسی ہی) مکاریاں کی تھیں تو خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آپہنچا اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی اور (ایسی طرف سے) ان پر عذاب آ واقع ہوا جہاں سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔
آیت نمبر 26 تا 34 ترجمہ : ان سے پہلے لوگوں نے بھ مکر کیا تھا، اور وہ نمرود تھا جس نے ایک بہت اونچا منارہ بنایا تاکہ اس پر چڑھ کر آسمان والوں سے قتال کرے، آخر اللہ تعالیٰ نے ان بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑدیا کہ ان پر آندھی اور زلزلہ بھیج کر ان کو منہدم کردیا، اور ان کے سروں پر ان کی چھتیں اوپر آپڑیں جس وقت وہ ان کے نیچے تھے اور ان پر عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا، یعنی ایسی جہت سے کہ ان کے خیال و خواب میں بھ نہ تھا، اور کہا گیا ہے کہ یہ تمثیل ہے ان منصوبوں کو ناکام کرنے کی جن کو انہوں نے رسول کے خلاف استوار کیا تھا، پھر روز قیامت بھی اللہ انھیں رسوا کرے گا اور فرشتوں کے ذریعہ اللہ ان سے تو بیخًا کہے گا بزعم شما میرے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کے بارے میں تم مومنین سے جھگڑتے تھے یعنی مومنین سے اختلاف کرتے تھے، اور جن کو علم عطا کیا گیا یعنی انبیاء اور مومنین کہیں گے یقیناً آج رسوائی اور بدبختی کافروں کے لئے ہے، اور یہ بات ان کی مصیبت پر اظہار مسرت کے طور پر کہیں گے جن کافروں کی جان فرشتے حالت کفر پر قبض کرتے ہیں (آخر وقت تک) کفر کرکے اپنے اوپر ظلم کرتے رہے، اس وقت یہ لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور موت کے وقت تسلیم و رضا کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ہم تو کوئی شرک نہیں کرتے تھے، تو فرشتے کہیں گے ہاں کیوں نہیں اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے تھے، وہ تم کو اس کی سزا دے گا اور ان سے کہا جا ئیگا پس تم جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجاؤ، وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا، اور جو لوگ شرک سے بچتے ہیں ان سے (فرشتے) پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا نازل کیا ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں خیر ہی خیر ( نازل کی) یعنی جن لوگوں نے ایمان کے ذریعہ اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہی بھلائی ہے یعنی پاکیزہ زندگی ہے اور دار آخرت یعنی جنت بہت ہی بہتر ہے دنیا اور مافیہا سے اللہ تعالیٰ نے دار آخرت کے بارے میں فرمایا، جنت متقیوں کے لئے کیا خوب گھر ہے، ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں (جنّٰت عدن) مبتداء ہے یدخلونھا، اس کی خبر ہے جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوگی، جو کچھ یہ لوگ اس میں طلب کریں گے وہ ان کو ملے گا پرہیز گاروں کو اللہ اسی طرح جزاء عطا فرماتا ہے وہ پرہیز گار کہ جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ کفر سے پاک صاف ہوتے ہیں (فرشتے) ان سے موت کے وقت کہتے ہیں تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے، اور آخرت میں ان سے کہا جائیگا اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ انھیں صرف اسی بات کا انتظار ہے کہ فرشتے ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے آجائیں (یاتیھم) یاء اور تاء کے ساتھ، یا تیرے رب کا حکم یعنی عذاب یا قیامت کا دن جو عذاب پر مشتمل ہوگا آجائے، اسی طرح جس طرح انہوں نے کیا ان سے پہلی امتوں نے بھی کیا ( یعنی) اپنے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ ہلاک کردیئے گئے، ان کو بغیر جرم کے ہلاک کرکے اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ کفر کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے پس ان کے برے اعمال کے نتیجے انھیں مل گئے یعنی ان کے اعمال کی سزا ان کو مل گئی، اور جس عذاب کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے وہی عذاب ان پر ٹوٹ پڑا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و رتفسیری فوائد قولہ : قَصَدَ ، اتیان کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے لئے چونکہ محال ہے اسلئے اتیان کی تفسیر مجازًاقَصَدَ سے کی ہے۔ قولہ : بُنیا نھم اس سے پہلے مضاف محذوف ہے، ای قَصَدَ استیصال بنیا نِھِمْ. قولہ : لِاِ فساد مَا اَبْرَموہ، یعنی تمثیل مراد لینے کی صورت میں ان کے منصوبوں کو جن کو وہ استوار کرچکے تھے ناکام بنانا مراد ہوگا نہ کہ نمرود کی تعمیر کردہ عمارت کو منہدم کرنا۔ قولہ : ای یقول اس اشارہ ہے کہ ماضی بمعنی مضارع ہے تحقیق و قوع کی وجہ سے مضارع کو ماضی سے تعبیر کردیا ہے۔ قولہ : قائلین، قائلین کا اضافہ کلام کو مربوط و مسلسل بنانے کے لئے کیا ہے، اس کے بغیر ماقبل و مابعد میں ربط نہیں رہتا۔ قولہ : نعت یعنی المتقین موصوف ہے اور تتوفّٰھم اس کی صفت ہے اور طیبین، تتو فّٰھُمْ کی ضمیر سے حال ہے۔ تفسیر وتشریح وَقد۔۔۔۔ القواعد، بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں اس سے مراد نمرود یا بخت نصّر ہے جنہوں نے بلندو بالامحل یا منارے بناکر آسمانوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور لوگوں کو بیوقوف بنایا کہ ہماری آسمانی مخلوق سے جنگ ہوئی جس میں فتح اور ان کی شکست ہوئی لہٰذا اب ہمارا کوئی سہیم وشریک نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ناکام و نامراد کردیا اور ان کا تعبیر کردہ چشم زدن میں زمین بوس ہوگیا، اور یہ واقعہ عراق کے شہر بابل کا بتایا جاتا ہے۔ مگر بعض دیگر مفسرین نے فرمایا کہ یہ محض ایک تمثیل ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہوں گے جس طرح کسی مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت کے بل گرپڑے، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس تمثیل سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ ہے جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور ان کے خلاف منصوبہ سازیاں کیں بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے اور اپنے گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد اور قوم لوط اور وثمود وغیرہ۔ اَلَّذِیْنَ تتوفّٰھُمُ الملائکۃ (الآیۃ) یہ مشرک ظالموں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی جارہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں، اور اطاعت و عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی (شرک) نہیں کرتے تھے، مشرکین میدان حشر میں اللہ تعالیٰ کے دو برو جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے " وَاللہ ربنا ما کنا مشرکین ". فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں ؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری عمر برائیوں میں گذری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے تمام اعمال کار کارڈ موجود ہے تمہارے اس انکار سے کچھ نہیں ہوگا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد فوراً ان کی روحیں جہنم میں پہنچ جاتی ہیں اور جسم قبر میں رہتے ہیں۔ دفع تعارض : سورة اعراف کی آیت 43 کے تحت یہ حدیث گذر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائیگا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی، لیکن یہاں فرمایا جارہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ، دراصل ان میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں گویا کہ عمل صالح اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ ہیں اس لئے عمل کی اہمیت بھی بجائے خود مسلم ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، نہ اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل سکتی ہے۔ وَاصَا۔۔۔۔ عملوا (الآیۃ) یعنی جب رسول اللہ ﷺ ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آجائیگا تو وہ استہزاء کے طور پر کہتے ہیں کہ جا اپنے اللہ سے جا کر کہہ کہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کردے، چناچہ اس عذاب نے انھیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر ان کے پاس بچاؤ کا کوئی راستہ نہ رہا۔
Top