Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہو صبر اور نماز کے ساتھ، اور بلاشبہ نماز ضرور دشوار ہے مگر خشوع والوں پر
صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ مدد حاصل کرو اس آیت شریفہ میں صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا طریقہ بتایا ہے، لفظ صبر تین معنی میں آتا ہے۔ (اوّل) طاعات پر جما رہنا، خاص کر فرائض اور واجبات کو پابندی سے ادا کرنا۔ (دوم) گناہوں سے پوری طرح اہتمام کے ساتھ بچنا۔ (سوم) جو مصائب اور مشکلات در پیش ہوں ان پر صبر کرنا۔ عام طور سے لوگوں میں یہ تیسرا معنی ہی زیادہ معروف ہے۔ تینوں قسم کا صبر اللہ تعالیٰ کی مدد کو لانے والا ہے۔ زندگی میں عموماً صبر کے مواقع پیش آتے رہتے ہیں۔ عبادات بھی صبر ہی سے ادا ہوتی ہیں۔ نفس عبادت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اگر تیار ہوتا ہے تو صحیح طریقہ سے ادا کرنے سے بچتا ہے۔ روزہ اور جہاد تو سراپا صبر ہی ہے۔ نماز سب سے بڑی عبادت ہے اس میں بھی صبر کا مظاہرہ ہے۔ نمازی کا ظاہر اور باطن عبادت ہی میں مشغول ہوجاتا ہے جو نفس پر شاق ہوتا ہے۔ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ مدد طلب کرنے کا حکم فرمایا، یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کی مدد لانے میں بڑا دخل رکھتی ہیں۔ حضرت حذیفہ ؓ روایت فرماتے ہیں کہ لیلۃ الاحزاب میں (غزوۂ خندق کے موقعہ پر) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس آیا (اُن کو ایک کام کے لیے بھیجا تھا) تو آپ چادر اوڑھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب کوئی مشکل در پیش ہوتی تھی تو نماز پڑھنے لگتے تھے۔ حضرت علی ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے غزوہ بدر کی رات میں یہ دیکھا کہ سوائے رسول اللہ ﷺ کے سب لوگ سوئے ہوئے تھے آپ برابر نماز میں مشغول رہے اور صبح ہونے تک دعا کرتے رہے۔ (ابن کثیر ص 87 ج 1) ۔ اس سلسلہ کا کچھ مضمون انشاء اللہ آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) کے ذیل میں آئے گا۔ مفسر ابن کثیر نے ابن جریر طبری سے نقل کیا ہے کہ (وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) میں علماء یہود سے خطاب فرمایا ہے (وہ لوگ تحصیل دنیا کے لیے اور ریاست اور جاہ باقی رکھنے کے لیے حق چھپاتے تھے اور اسلام نہ خود قبول کرتے تھے اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے ان کو حکم ہوا کہ حق قبول کرو، اسلام لاؤ، اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگو، صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ اللہ کی مدد حاصل کرو جو اللہ سے نزدیک کرے گی اور برائیوں سے روکے گی، اسلام قبول کرنے پر جو کچھ تکلیف پہنچ جائے، مال اور ریاست میں کمی آجائے اسے صبر کے ساتھ برداشت کرو) ۔ پھر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت کا خطاب اگرچہ بنی اسرائیل کے انذار اور تحذیر کے سیاق میں وارد ہوا ہے لیکن علی سبیل التخصیص صرف یہود مخاطب نہیں ہیں بلکہ صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کا حکم یہود اور غیر یہود سب ہی کیلئے ہے۔ (ص 88 ج 1) نماز کی اہمیت : نماز میں ظاہر اور باطن سب عبادت میں لگ جاتا ہے۔ یہ ظاہری طہارت اور باطنی تزکیہ دونوں کو شامل ہے کچھ نہ کچھ مال بھی خرچ ہوتا ہے (مثلاً وضو اور غسل کے لیے پانی حاصل کرنا پڑتا ہے اور ستر عورت کے لیے کپڑوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے) اگر صحیح طریقہ پر نماز پڑھی جائے تو دل اور اعضاء نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، اس میں شیطان سے مقابلہ ہے اور حق تعالیٰ شانہٗ سے مناجات ہے تلاوت قرآن ہے توحید اور رسالت کی گواہی ہے، نفس کو اس کے تقاضوں سے روکنا ہے اس میں چلنا پھرنا، کھانا پینا اور بات کرنا ممنوع ہے۔ نماز کے بہت سے فضائل اور فوائد ہیں۔ اگر نماز کو ٹھیک طرح سے پڑھا جائے، فرائض کی پابندی کی جائے، سنتوں کا اہتمام کیا جائے، نوافل کی طرف دھیان دیا جائے تو ضرور اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بندہ کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ خشوع کی ضرورت : پھر فرمایا کہ نماز ضرور دشوار ہے مگر خشوع والوں پر دشوار نہیں۔ خشوع دل کے جھکاؤ اور عاجزی اور فروتنی کو کہا جاتا ہے۔ جب دل میں خشوع ہوتا ہے تو اعضاء میں بھی اس کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے جو لوگ خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ان کی نماز واقعی نماز ہوتی ہے، نماز میں ان کا دل لگتا ہے، نماز چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ مسجد سے جائیں تو مسجد میں واپسی کے لیے دل اٹکا رہتا ہے۔ جسے نماز کا خشوع حاصل ہوگیا اسے ساری کامیابیاں حاصل ہوگئیں۔ سورة مؤمنون میں فرمایا کہ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ ) (بےشک وہ کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں) ۔ دنیا میں لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ طلب دنیا کے لیے بڑی محنتیں کرتے ہیں۔ پہاڑ توڑتے ہیں، پتھر پھوڑتے ہیں بہت سے لوگ اٹھارہ گھنٹے روزانہ محنت کرتے ہیں لیکن دو رکعت پڑھنا، ان کے لیے مصیبت بن جاتا ہے۔ اگر نماز شروع کردیں تو اس میں بھی اپنے دنیاوی مشاغل کا ہی دھیان رکھتے ہیں، خشوع نہیں ہوتا اس لیے دو رکعت پڑھنا بھی بھاری پڑجاتا ہے۔ خشوع والے کون ہیں ؟ پھر فرمایا کہ خشوع والے وہ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ بیشک اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ خشوع ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جنہیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کو موت کے بعد جی اٹھنا ہے اور میدان قیامت میں حاضر ہونا ہے اور بارگاہ خداوندی میں پیشی ہونی ہے۔ اور اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے، جس کو ان باتوں کا یقین ہوگا وہ نما زقضا بھی نہ کرے گا، بےوقت بھی نہ پڑھے گا اچھی نماز بھی پڑھے گا۔ اس کو خشوع کی کیفیت بھی حاصل ہوگی۔ رکوع سجدہ بھی ٹھیک کرے گا۔ اس کی تلاوت بھی صحیح ہوگی۔ (قال ابن کثیر ای یعلمون انھم محشورون الیہ یوم القیامۃ معروضون علیہ وانھم الیہ راجعون ای امورھم راجعۃ الی مشیئتہ فلھذا لما ایقنوا بالمعاد و الجزاء سھل علیھم فعل الطاعات و ترک المنکرات) ۔ (ص 88 ج 1) درحقیقت جسے یہ یقین ہو کہ یہ نماز آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے گی اور نماز قبول ہوئی اور نیکیاں بھی قبول ہوں گی۔ یہ رد ہوئی تو دوسرے اعمال بھی رد ہوجائیں گے ( جیسا کہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے) اور یہ کہ میری نماز کا ثواب مجھی کو ملنا ہے اور اس کی وجہ سے بڑے بڑے انعامات نصیب ہوتے ہیں تو ایسا شخص بےوقت نماز کیوں پڑھے گا۔ جلدی جلدی کیوں پڑھے گا۔ اور رکوع سجدہ میں کمی کیوں کرے گا ؟ در حقیقت آخرت کی پیشی اور وہاں کے عذاب وثواب کا فکر ہو تو یہ دین کے بڑے بڑے کام کروا سکتا ہے۔ یہ نہ ہو تو صحیح طریقے پر دو رکعت نماز پڑھنا بھی بھاری ہوجاتا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک انسان نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے نماز کا دسواں یا نواں یا آٹھواں یا ساتواں یا چھٹا یا پانچواں یا چوتھائی یا تہائی یا آدھا حصہ لکھا جاتا ہے (رواہ ابو داؤد و النسائی و ابن حبان فی صحیحہ کما فی الترغیب ص 341 ج 2) یہ ثواب کی کمی اور کٹوتی خود نمازی کے اپنے اخلاص، عمل اور خشوع کی کمی اور کوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
Top