Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرنے ہو، اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے۔
مبلغ اور داعی اپنے نفس کو نہ بھولے اس آیت میں بھی یہودیوں سے خطاب کیا گیا ہے، چونکہ یہ لوگ قرآن کو اور رسول اللہ ﷺ کو حق جانتے تھے، اس لیے پوشیدہ طور پر کبھی کبھی اپنے عوام اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیتے تھے اور خود اسلام قبول نہیں کرتے تھے۔ تفسیر ابن کثیر اور در منثور میں حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات نقل کی ہے ” رسول اللہ ﷺ ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو آپ کی خدمت کیا کرتا تھا آپ تشریف لائے اور اس کے سر کے پاس تشریف فرما ہوگئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، جو وہاں موجود تھا اس کے باپ نے کہا کہ أبو القاسم (محمد رسول اللہ ﷺ کی بات مان لے چناچہ اس نے اسلام قبول کیا اور آپ وہیں سے یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اسے دوزخ سے بچا دیا۔ (صحیح بخاری) اس کے علاوہ بھی علماء یہود میں بےعملی عام تھی لوگوں کو نماز روزے کا حکم کرتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو عار دلائی اور فرمایا کہ جو خیر کا حکم کرے اسے خیر میں دوسروں سے آگے بڑھنا چاہیے۔ (قالہ ابن جریج کما فی تفسیر ابن کثیر) یہاں یہ بات اگرچہ یہودیوں کی بےعملی ظاہر کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے لیکن اس کا حکم سب کے لیے عام ہے جو بھی کوئی شخص لوگوں کو بھلائی کا حکم کرے گا اور گناہوں سے روکے گا اور خود بےعمل ہوگا اس کا انجام برا ہوگا۔ اور اس طریقہ کار کی شناعت اور قباحت اسے لے ڈوبے گی۔ بعض روایات میں ہے کہ جو عالم لوگوں کو خیر سکھاتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا وہ اس چراغ کی طرح سے ہے جس کی بتی جلتی رہتی ہے لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے لیکن بتی خود جل جاتی ہے۔ (ابن کثیر عن الطبرانی فی المعجم الکبیر) بے عمل واعظوں کی سزا : حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ جب کٹ جاتے ہیں تو پھر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں کیا ان کو سمجھ نہیں ہے۔ (درمنثور ص 64 ج 1 عن البیہقی عن شعب الایمان، وعزاہ صاحب المشکوٰۃ ص 438 الی شرح السنۃ) حضرت اسامہ بن زید ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس میں اس کے پیٹ کی آنتیں نکل پڑیں گی اور وہ اپنی آنتوں کے ساتھ گھومتا پھرے گا جیسے گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں تجھے کیا ہوا ؟ کیا تو ہمیں اچھی باتیں نہیں بتاتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا۔ وہ جواب دے گا کہ میں تم کو اچھی باتوں کا حکم کرتا تھا اور خود نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے روکتا تھا اور خود اس برائی کو کرتا تھا۔ (صحیح مسلم ص 412 ج 2) فائدہ : مذکورہ بالا آیات اور احادیث شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں ( نیکیوں کا حکم دیں، برائیوں سے روکیں) اور خود بھی عمل کریں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ نہ عمل کریں نہ امر بالمعروف کریں نہ نہی عن المنکر کریں۔ مبلغ اور مصلح کو عمل کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عمل نہ کرے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ قال ابن کثیر فکل من الامر بالمعروف و فعلہ واجب ولا یسقط احدھما بترک الاخر علی اصح قول العلماء من السلف و الخلف والصحیح ان العالم یامر بالمعروف و ان لم یفعلہ و ینھی عن المنکر و ان ارتکبہ۔ (علامہ ابن کثیر ؓ فرماتے ہیں نیکی کا حکم کرنا اور خود نیکی کرنا ہر ایک پر واجب ہے کوئی دوسرے کے ترک کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا علمائے سلف و خلف کا صحیح قول یہی ہے۔ اور صحیح یہی ہے کہ عالم نیکی کا حکم کرے اگرچہ خود نہ کر رہا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکے اگرچہ خود مرتکب ہو رہا ہو۔ (ص 85 ج 1)
Top