Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ هُمْ : وہ مِّنْ : سے خَشْيَةِ : ڈر رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّشْفِقُوْنَ : ڈرنے والے (سہمے ہوئے)
بلاشبہ جو لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں
نیک بندوں کی صفات ان آیات میں نیک بندوں کی مزید صفات بیان فرمائی ہیں۔ اولا تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اپنے رب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں دوسرے یہ فرمایا کہ وہ اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔ تیسرے یہ فرمایا کہ اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے چوتھے یہ فرمایا کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس خرچ کرنے پر انہیں کوئی سخاوت کا گھمنڈ اور غرور نہیں ہوتا بلکہ وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کی بار گاہ میں جانا ہے وہاں یہ مال خرچ کرنا قبول ہوتا ہے یا نہیں وہاں پہنچ کر کیا صورت حال ہو یہاں کچھ نہیں کہہ سکتے، مال پوری طرح حلال تھا یا نہیں، نیت خالص اللہ کی رضا کے لیے تھی یا اس میں کچھ ریا کاری ملی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ان حضرات کی مذکورہ بالا صفات بیان فرما کر ان کی تعریف فرمائی کہ یہ لوگ خیرات یعنی نیک کاموں کی طرف جلدی جلدی بڑھتے ہیں اور نیک کاموں میں سبقت لے جاتے ہیں۔ اہل دنیا میں اموال کمانے میں مسابقت کرنے یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے جذبات ہوتے ہیں اور ان لوگوں میں ایسے کاموں میں آگے بڑھنے کے جذبات ہیں جن کی وجہ اور ذریعہ سے آخرت میں زیادہ سے زیادہ نعمتیں ملیں۔ یہ جو فرمایا کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس جانا ہے اس کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جن لوگوں کے دل ڈر رہے ہیں کیا ان سے وہ لوگ مراد ہیں جو شراب پیتے ہیں چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس سے یہ لوگ مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ یہ (عبادات) ان سے قبول نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو خیرات یعنی اعمال صالحہ میں جلدی کرتے ہیں۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ کمافی المشکوۃ صفحہ 458) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سارے اعمال اپنے طور پر اخلاص نیت کے ساتھ ٹھیک طریقہ پر ادا کرنے کے باو جود بھی ڈرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے اعمال قبول ہوتے ہیں یا نہیں، اول تو ضروری نہیں ہے کہ ہر کام پوری طرح درست ہی ہوگیا ہو۔ کمی کوتاہی کا نیت کی خرابی کا کچھ نہ کچھ احتمال ہر عمل کے ساتھ لگا ہوا ہے کوئی شخص کیسے یقین کرسکتا ہے کہ میرا سب کچھ درست ہے اور لائق قبول ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے بھی مالا مال فرمایا اور اعمال صالحہ کی بھی توفیق دی، اور اس کا مزید کرم یہ ہے کہ اعمال کو قبول فرما کر اجر وثواب بھی عطا فرماتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اعمال کا حکم بھی دیتا اور عمل کرنے کے بعد کچھ بھی نہ دیتا، وہ مالک ہے حاکم ہے حقیقت میں اس کے ذمہ کسی کا کوئی حق نہیں، اجر وثواب عطا اور بخشش اور فضل ہی فضل ہے۔ جو حضرات اس حقیقت کو جانتے ہیں وہ اچھے سے اچھا عمل بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ دیکھو قبول ہوتا ہے یا نہیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے نماز میں پڑھنے کے لیے کوئی دعا بتائیے آپ نے فرمایا کہ یوں دعا کیا کرو۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاّآ اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَ ارْحَمْنِیْٓ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور آپ کے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا سو آپ اپنے پاس سے میری مغفرت فرمائیے بلاشبہ آپ بخشنے والے اور رحم فرمانے والے ہیں) غور کرنے کی بات ہے پڑھی ہے نماز، وہ بھی ابوبکر صدیق نے اور جو دعا بتائی جا رہی ہے اس کی ابتداء یہاں سے ہے کہ اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا، اسی لیے عارفین نے فرمایا کہ ہر اچھے عمل کے آخر میں بھی استغفار کرلینا چاہئے استغفار جہاں گناہوں کے معاف ہونے کا ذریعہ ہے وہاں اعمال کی کمی اور کوتاہی کی تلافی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی کو بھی اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کیا آپ کا عمل بھی آپ کو نجات نہیں دلائے گا آپ نے فرمایا ہاں میرا بھی یہ حال ہے الایہ کہ میرا رب مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ دے۔ آخر میں فرمایا (وَلاَ نُکَلِّفُ نَفْسًا اِِلَّا وُسْعَہَا) (ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتے) جس شخص کو جو حکم دیا ہے وہ اس کی طاقت سے باہر نہیں ہے اور ہر شخص کا عمل محفوظ ہے کتاب میں لکھا ہوا ہے قیامت کے دن وہ کتاب حق کے ساتھ بولے گی سب کو ظاہر کر دیگی۔ جب جزا سزا ملے گی تو کسی پر ذرا سا ظلم بھی نہ ہوگا اسی کو فرمایا (وَلَدَیْنَا کِتٰبٌ یَنطِقُ بالْحَقِّ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) (اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق کے ساتھ بیان دیگی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا) ۔
Top