Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ هُمْ : وہ مِّنْ : سے خَشْيَةِ : ڈر رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّشْفِقُوْنَ : ڈرنے والے (سہمے ہوئے)
بیشک وہ لوگ جو اپنے رب کی حیثیت سے ہر وقت ترساں ہیں
آیت 61-57 بازی جیتنے والوں کی صفات یہاں سورة کی ابتدائی دس آیات پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ وہاں جن اہل ایمان کو فوز و فلاح کی بشارت دی ہے۔ انہی کا ذکر ذرا مختلف الفاظ میں پھر فرمایا کہ البتہ یہ لوگ، جن کی صفات یہ یہ ہیں، حقیقی کامیابیوں کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں اور بیشک یہ لوگ اپنی منزل مقصود کو پہنچ کے رہیں گے۔ ان لوگوں کی مندرجہ ذیل صفات یہاں گنائی ہیں اور یہ صفات ان مسلمانوں کی ہیں جو اس دور میں دنیا کی تمام مرغوبات سے منہ موڑ کر رضائے الٰہی کی طلب کی راہ میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی خشیت سے ہر وقت لرزاں و ترساں ہیں۔ اس کی شہادت ان کی نمازوں سے ملتی ہے۔ چناچہ اوپر فرمایا ہے۔ ھم فی صلاتھم خشعون دوسری صفت یہ ہے کہ ھم بایت ربھم یومنون یہ متکبرین کی طرح خدا کی آیات کا مذاق نہیں اڑاتے بلکہ جب اللہ کا رسول ان کو یہ آیات سناتا ہے تو وہ ان پر آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ ھم بریھم لایشکرون ان کا سارا اعتماد اپنے رب پر ہے وہ کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتے۔ چوتھی صفت یہ کہ یوقون مآ اتواء قلوبھم وجلۃ انھم الی ربھم رجعون وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں نمائش اور فخر کے لیء نہیں خرچ کرتے بلکہ خدا کی رضا جوئی کے لئے خرچ کرتے ہیں کہ ایک دن کو منہ دکھاتا ہے۔ انھم الی ربھم راجعون میرے نزدیک دجلۃ کے وضاحت کے طور پر ہے اس سے اس خوف کی وضاحت ہوگئی جو ان کے دلوں میں سمایا ہوا ہے۔ اولئک یسرعون فی الخیرت وھم لھا سبقون فرمایا کہ بیشک یہ لوگ ہیں جو بھلائیوں اور کامیابیوں کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں اور یہ ان نیکیوں کے ثمرات پا کے رہیں گے نہ کہ وہ لوگ جو ہمارے استدراج کو اپنی فتوحات سمجھ رہے ہیں اور برابر اپنی ہلاکت کے غار کی طرف آنکھیں بند کئے ہوئے بگٹٹ بڑھے چلے جا رہے ہیں۔ یہ آیت اوپر کی آیت 56 کی مقابل آیت اور شروع کے مضمون قد افلح المومنون الآیہ کی وضاحت مزید کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں دونوں آیتوں کے اسلوب بیان کے اس فرق پر بھی نگاہ رہے کہ اوپر تو فرمایا کہ نادرع لھم فی الخیرت (یہ عیش دنیا کے متوالے اس مغالطہ میں ہیں کہ انکے مال و اولاد میں ہم جو اضافہ پر اضافہ کر رہے ہیں یہ ان کے لئے خیر میں اضافہ کر رہے ہیں) اور ان اہل ایمان کے باب میں فرمایا کہ اولئک یرعون فی الخیرت (بےشک یہ لوگ ہیں جو بھلائیوں کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں اور یہ اپنی بازی جیتیں گے اسلوب بیان کا یہ فرق واضح کرتا ہے کہ اس دنیا میں انسان جو کچھ پاتا ہے وہ بہرحال خدا ہی کے دیئے پاتا ہے اور اس کی حیثیت انعام کی نہیں بلکہ امتحان کی ہوتی ہے۔ البتہ آخرت میں انسان جو کچھ پائے گا وہ اس کی اپنی سعی و عمل کا ثمرہ اور اس کی اپنی محنت کا اجر ہوگا تو جس کو مسابقت کرنی ہو وہ اس میدان میں کرے۔ نہ کہ اس میدان میں جس کی ہر چیز محض وقتی اور آزمائشی ہے۔
Top