Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ هُمْ : وہ مِّنْ : سے خَشْيَةِ : ڈر رَبِّهِمْ : اپنا رب مُّشْفِقُوْنَ : ڈرنے والے (سہمے ہوئے)
بیشک وہ لوگ جو اپنے رب کی خشیت سے لرزاں وترساں رہنے والے ہیں
اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ ۔ (المومنون : 57) (بےشک وہ لوگ جو اپنے رب کی خشیت سے لرزاں وترساں رہنے والے ہیں۔ ) کامیابی کے راستے پر چلنے والوں کی پہلی صفت اس سے پہلے کفار کی خوش فہمیوں اور ان کے غلط تصورات کا تذکرہ ہوا۔ جن کی وجہ سے ان کی فکری اور عملی زندگی میں ایسی دراڑیں واقع ہوئیں جنھوں نے ان کی دنیا وعقبیٰ کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ اب پیش نظر آیت کریمہ سے ان لوگوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو نہ صرف کامیابیوں کے راستے کے مسافر ہیں بلکہ ان کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی منزل مقصود کو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ انھوں نے کامیابیوں کے وضعی تصورات کو رد کرکے ان افکار و اعمال کو اپنی زندگی کی زینت بنایا ہے جو اس راستے کی کامیابی کی حقیقی ضمانت ہیں۔ دولت و رفاہیت اور عہدہ ومنصب زندگی میں بظاہر بڑائی اور عظمت کی علامت ہیں۔ لیکن ان سے اقدارِ انسانیت کی جلاوبقا میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ انسان کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ان میں سے چند لوگ امیر سے امیر تر ہوجائیں اور باقی لوگ نان شبینہ کے محتاج رہیں بلکہ انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کے اندر ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس پیداہو۔ لوگ اپنی منڈیر اونچی کرنے کو عزت کی علامت نہ سمجھیں بلکہ جھونپڑوں میں رہنے والوں کو ایسی چھت مہیا کرنے کو اپنا فرض جانیں جس میں وہ حوادثِ روزگار سے محفوظ رہ سکیں۔ انسان کی عظمت یہ نہیں کہ اس کے ساتھ طاقت کی فراوانی ہو بلکہ انسان کی عظمت یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کا حقوق آشنا ہو اور اپنی دولت و ثروت اور قوت وہیبت کو انسانی معاشرے کی استواری کا ذریعہ سمجھتاہو اور یہ تصورات اس وقت تک دلوں میں پیدا نہیں ہوتے جب تک دلوں میں ان صفات کا دیپ نہیں جلتا جس کا پیش نظرآیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کی خشیت اور خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ جب ان کے اندر کسی برائی کا تصور سر اٹھاتا ہے یا ان کی طاقت انھیں کسی کمزور پر ہاتھ اٹھانے پر اکساتی ہے تو ان کے رب کی خشیت اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ آج تم اپنی طاقت اور قوت کی وجہ سے کسی کمزور پر ہاتھ اٹھانا اگر جائز سمجھتے ہو تو کل جب تم اس ذات کے سامنے کھڑے کیے جاؤ گے جو تمام طاقتوروں سے بڑھ کر طاقتور ہے اور سب حکمرانوں سے بڑا حکمران ہے تو اسے کیا جواب دو گے ؟ ان کی زندگی میں یہ تصور کہ اللہ بےپناہ قدرتوں کا مالک ہے اور میں ہر وقت اس کے حصار میں ہوں۔ کسی غلط کام کی طرف بڑھنے سے پہلے ان کے جسم پر کپکپی طاری کردیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب انسانوں میں ایسے بنیادی تصورات جگہ بنا لیتے ہیں تو ان کی زندگی دوسروں کے لیے رحمت بن جاتی ہے اور یہیں سے انسانی کامیابی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کی خشیت کو دل میں بٹھا لیتا ہے اس کے اندر سے عرفانِ ذات کا جو شرارہ پھوٹتا ہے اقبال نے اسے زبان دیتے ہوئے کہا ؎ تری دنیا جہانِ مرغ و ماہی مری دنیا فغانِ صبح گاہی تری دنیا میں، میں محکوم و مجبور مری دنیا میں تیری پادشاہی
Top