Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور جب بیہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
عباد الرحمن کی دسویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ ) (اور یہ وہ لوگ ہیں جو جھوٹ کے کاموں میں حاضر نہیں ہوتے) جھوٹ کے کاموں سے وہ تمام کام مراد ہیں جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہوں کوئی شخص گناہ کا کام کرے اس کی ممانعت سب ہی کو معلوم ہے جن مواقع میں گناہ ہو رہے ہوں ان مواقع میں جانا بھی ممنوع ہے، مشرکین کی عبادت گاہوں میں ان کے تہواروں میں اور ان کے میلوں میں نہ جائیں۔ جہاں گانا بجانا ہو رہا ہو، ناچ رنگ کی محفل ہو، شراب پینے پلانے کی مجلس ہو، ان سب مواقع میں اللہ کے بندے نہیں جاتے، گو اپنے عمل سے گناہ میں شریک نہ ہوں لیکن جب اپنے جسم سے حاضر ہوگئے تو اول تو اہل باطل کی مجلس میں اپنی ذات سے ایک شخص کا اضافہ کردیا، جبکہ برائی کی مجلسوں میں اضافہ کرنا بھی ممنوع ہے دوسرے ان مجالس میں شریک ہونے سے دل میں سیاہی اور قساوت آجاتی ہے اور نیکیوں کی طرف جو دل کا ابھار ہوتا ہے اس میں کمی آجاتی ہے اگر بارہا ایسی مجلسوں میں حاضر ہو تو نیکیوں کی رغبت ختم ہوجاتی ہے اور نفس برائیوں سے مانوس ہوتا چلا جاتا ہے بیاہ شادیوں میں آج کل بڑے بڑے منکرات ہوتے ہیں ٹیوی ہے وی سی آر ہے تصویر کشی ہے فلمیں بنانا ہے اور بھی طرح طرح کے معاصی ہیں ان میں شریک ہونے سے بچیں اور اپنے نفس اور روح کی حفاظت کریں یورپ اور امریکہ میں مسلمان دوڑ دوڑ کر جا رہے ہیں وہاں ہوٹلوں میں اور کافروں کی محفلوں میں دوستوں کی مجلسوں میں طرح طرح کے گناہ ہوتے ہیں شراب کا دور بھی چلتا ہے ننگے ناچ بھی ہوتے ہیں ان سب میں حاضر ہونے سے اپنی جان کو بچانا لازم ہے ورنہ چند دن میں انہیں جیسے ہوجائیں گے۔ اعاذنا اللّٰہ تعالیٰ من ذلک۔ بعض حضرات نے (لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ ) کا مطلب یہ لیا ہے کہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے یہ مطلب بھی الفاظ قرآنیہ سے بعید نہیں ہے جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے بلکہ بعض روایات میں اسے اکبر الکبائر میں شمار فرمایا ہے حضرت خریم بن فاتک ؓ نے بیان کیا کہ ایک دن نماز فجر سے فارغ ہو کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور تین بار فرمایا کہ جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے پھر آپ نے سورة الحج کی یہ آیت پڑھی (فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِحُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ ) (سو تم نا پاکی سے یعنی بتوں سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو اس حال میں کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہو اس کے ساتھ شرک کرنے والے نہ ہو۔ (رواہ ابو داؤد) عباد الرحمن کی گیا رھویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاِِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا) (اور جب بےہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں) یعنی برائی کی مجلسوں میں شریک ہونا تو درکنار اگر کبھی لغو اور بےہودہ مجلسوں میں اتفاق سے ان کا گزر ہوجائے تو بھلے مانس ہو کر گزر جاتے ہیں یعنی جو لوگ لغو اور بیہودہ کاموں میں مشغول ہوں ان کے عمل کو نفرت کی چیز جانتے ہوئے ان پر نظر ڈالے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بھلے آدمیوں کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ جو وہاں کھڑا ہوگیا وہ تو شریک ہوگیا اور اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی شریر آدمی مجلس میں اندر بلانے لگے یا بلا وجہ خواہ مخواہ کسی بات میں الجھ پڑے خیریت اسی میں ہے کہ ادھر سے اعراض کرتے ہوئے گزر جائے اگر ان میں سے کوئی شخص چلتے ہوئے کو چھیڑ دے تو یوں سمجھ لے کہ مجھے نہیں کہا۔
Top