Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
والذین لا یشہدون الزور اور وہ جو جھوٹی شہادت نہیں دیتے۔ بغوی نے لکھا ہے ضحاک اور اکثر مفسرین کے نزدیک زور سے مراد ہے شرک۔ میں کہتا ہوں اس تفسیر پر نفی شرک کی تکرار ہوجائے گی۔ کیونکہ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہَ اِلَہًا اٰخَرَمیں شرک کی نفی ہے۔ علی بن طلحہ کے نزدیک شہادت زور سے مراد ہے لوگوں کے خلاف جھوٹی شہادت دینی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جھوٹے گواہ کے چالیس تسمے (کوڑے) مارے جائیں اور منہ کالا کر کے بازار میں گھمایا جائے۔ ابن ابی شیبہ نے بروایت ابو خالد بحوالۂ حجاج بوساطت مکحول ولید کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنے عاملوں کو جو شام میں مامور تھے لکھ بھیجا تھا کہ جھوٹے گواہ کے چالیس کوڑے مارے جائیں اور منہ کالا کیا جائے اور سر منڈوا دیا جائے اور طویل مدت تک قید میں رکھا جائے۔ عبدالرزاق نے مصنف میں مکحول کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جھوٹے گواہ کے چالیس کوڑے لگوائے تھے۔ یہ بھی عبدالرزاق نے لکھا ہے کہ مجھ سے یحییٰ بن علاء نے اور یحییٰ سے احوص بن حکیم نے بیان کیا اور احوص نے اپنے باپ کی روایت سے نقل کیا کہ حضرت عمر ؓ نے جھوٹے گواہ کے متعلق حکم دیا کہ اس کا منہ کالا کیا جائے اور اس کی پگڑی گردن میں ڈال کر قبائل میں گھمایا جائے۔ حضرت عمر ؓ کے انہی احکام کی روشنی میں امام مالک ‘ (رح) : امام شافعی (رح) :‘ امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) نے فرمایا جھوٹے گواہ کو (کوڑے) مارنے کی تعزیری سزا دی جائے اور اس کی قوم کے سامنے لے جا کر اس کو کھڑا کیا جائے تاکہ وہ بھی پہچان جائیں کہ یہ جھوٹا گواہ ہے۔ امام مالک (رح) نے اتنا زائد فرمایا کہ مسجدوں اور بازاروں میں اس کو حاضر کیا جائے۔ مذکورۂ بالا ائمہ نے فرمایا کہ جھوٹی شہادت گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان حضرت انس ؓ کی روایت سے شیخین نے صحیحین میں نقل کیا ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو بتاؤں کہ سب سے بڑے کبیرہ گناہ کون سے ہیں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور فرمائیے ‘ فرمایا اللہ کا ساجھی قرار دینا ‘ ماں باپ سے سرکشی کرنا ‘ حضور ﷺ اس وقت تکیہ لگائے ہوئے تھے فوراً اٹھ بیٹھے اور فرمایا سنو اور جھوٹی بات کہنی ‘ جھوٹی شہادت دینی۔ حضور ﷺ نے اس لفظ کو بار بار اتنی مرتبہ فرمایا کہ ہم نے (اپنے دل میں) کہا اب حضور ﷺ خاموش ہوجاتے تو بہتر تھا۔ اللہ نے شرک اور جھوٹی شہادت سے پرہیز رکھنے کا یکجائی حکم ملا کردیا ہے اور فرمایا ہے فاجْتَنِبَوُا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ جب شہادت زور کبیرہ گناہ قرار پائی اور اس کی کوئی شرعی سزا مقرر نہیں ہے بلکہ اس میں تعزیر ہے امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تعزیری سزا کے لئے صرف تشہیر کافی ہے۔ مارنا اور قید کرنا جائز نہیں کیونکہ تعزیر کا مقصد ہے (مجرم کو) بازداشت اور یہ بازداشت تشہیر سے حاصل ہوجاتی ہے۔ مارنے اور قید کرنے میں زجر و بازداشت کی شدت ہے لیکن ایسی سخت سزا کا تصور مجرم کو اپنی شہادت کے جھوٹے ہونے کے اقرار اور شہادت سے لوٹ جانے سے روکتا ہے اور شہادت کا جھوٹ ہونا بغیر اس کے ثابت نہیں ہوتا کہ مجرم خود ہی اپنی شہادت کے کاذب ہونے کا اقرار کرے اور دی ہوئی شہادت سے لوٹ جائے لہٰذا جھوٹی شہادت کی سزا میں تخفیف ہونی چاہئے (تاکہ مجرم اپنی شہادت کے جھوٹے ہونے کا اقرار کی جرأت کرسکے) رہا حضرت عمر ؓ کا اثر تو وہ محض سیاسی تھا۔ (آئینی نہ تھا آرڈیننس تھا جس کا امیروقت کو اختیار ہے) ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی طرح قاضی شریح کا قول بھی روایت میں آیا ہے۔ امام محمد نے کتاب الآثار میں بیان کیا ہے کہ شریح جب کسی جھوٹے گواہ کو پکڑ لیتے تھے اور مجرم بازاری شخص ہوتا تو شریح اپنے قاصد کو حکم دیتے کہ جا کر بازار والوں سے کہہ دو کہ شریح تم کو سلام کہتا ہے اور سلام کے بعد اس نے کہا ہے کہ ہم نے اس شخص کو جھوٹا شاہد پایا تم لوگ اس سے پرہیز رکھو اور اگر مجرم (بازاری نہ ہوتا بلکہ) عرب کے قبیلہ میں سے ہوتا تو اس قبیلہ کی مسجد میں قاصد کو بھیج کر مذکورہ بالا پیام کہلا بھیجتے۔ ابن ابی شیبہ نے بھی شریح کا یہی فیصلہ نقل کیا ہے۔ ابن جریج کے نزدیک شہادت زور سے ہر جھوٹ مراد ہے صرف شرک ہی مراد نہیں ہے۔ بعض علماء نے لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرکا مطلب یہ بیان کیا کہ وہ جھوٹ کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتے (یعنی الزور سے پہلے مضاف محذوف ہے) کیونکہ بیہودہ جلسوں میں موجود ہونا بھی شرکت کا حکم رکھتا ہے۔ اس تفسیر پر بیہودہ قصوں یا شاعری کی مجلسوں میں شرکت کرنا ناجائز قرار پائے گا۔ مجاہد کا یہی قول ہے۔ مراد یہ ہے کہ مشرکوں کے تہواروں اور میلوں میں وہ شریک نہیں ہوتے۔ بعض نے الزور سے نوحہ کی مجلس مراد لی ہے۔ قتادہ نے عدم شہادت زور کا یہ مطلب بیان کیا کہ بیہودہ باطل باتوں کی تائید اور اعانت نہیں کرتے۔ محمد بن حنفیہ (رح) نے فرمایا ‘ لغو اور گانے کے موقع پر حاضر نہیں ہوتے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا گانا دلوں میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو۔ بغوی نے لکھا ہے زور کا اصل معنی ہے کسی چیز کو خوبصورت بنا دینا اور اصل حالت کے خلاف دوسری حالت پر دکھانا ‘ پس (اس جگہ) زور کے معنی ہوئے باطل پر ایسا ملمع کرنا کہ وہ حق معلوم ہونے لگے۔ میں کہتا ہوں لغت میں زور کا معنی ہے موڑ دینا ‘ پھیر دینا اللہ نے فرمایا ہے (تَزَاوَرُ عَنْ کَہْفِہِمْ ) سورج ان کے غار سے مڑ جاتا ہے۔ اس کا استعمال کذب کے لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ جھوٹ میں حق سے باطل کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے اسی طرح ہر لغو بات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ صاحب قاموس نے لکھا ہے زور ‘ بالضم جھوٹ اور شرک اور یہود و نصاریٰ کے تہوار (میلے) اور سرور اور گانے کی مجلس اور گانے کے سوا دوسرے (باطل) معبود اور قوت میں کہتا ہوں صاحب قاموس نے جو معانی بیان کئے ہیں ان میں سے رئیس اور قوت کے علاوہ آیت میں ہر معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ واذا مروا باللغو مروا کراما۔ اور اگر (اتفاقاً ) بیہودہ مشغلوں کے پاس سے ہو کر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ اس کا عطف آیت لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَپر ہے۔ زور سے مراد بھی معاصی ہیں اور لغو سے مراد بھی معاصی ہیں اور شہود سے مراد ہے حاضر ہونا حسن اور کلبی کا یہی قول ہے مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنے ارادہ سے گناہوں کی مجلسوں میں نہیں جاتے لیکن اتفاقاً اگر کسی گناہ کی محفل کی طرف سے ان کا گزر ہوجاتا ہے تو منہ پھیر کر تیزی کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ عربی محاورہ ہے کَرُمَ فَلاَنٌ عَمَّا یُشُیِّنُہفلاں شخص ایسی باتوں سے پاک ہے جو اس کو عیب دار بناتی ہیں اکرم نفسہ عنہ اس نے اپنے نفس کو عیب دار بنانے والی باتوں سے پاک رکھا۔ مقاتل نے کہا آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کافروں سے وہ برا بھلا اور دکھ پہنچانے والی باتیں سنتے ہیں تو درگزر کرتے ہیں اور منہ پھیر لیتے ہیں۔ ابن جریج کی روایت میں مجاہد کا بھی یہی قول آیا ہے۔ یہی مفہوم ہے آیت وَاِذَا سَمِعُوُا اللَّغْوَا اَعْرَضُوْا عَنْہُکا۔ سدی نے کہا آیت مذکورۂ بالا آیت جہاد سے منسوخ ہے۔ میں کہتا ہوں (اس آیت میں اور جہاد کی آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ مترجم) حکم جہاد و قتال اداء جزیہ (کی شرط ماننے) پر ختم ہوجاتا ہے برا بھلا کہنے اور دکھ پہنچانے پر تو قتال کا حکم نہیں ہے۔
Top