Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بےہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
(25:72) لایشھدون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وہ شہادت نہیں دیتے۔ شھد یشھد (سمع) شھادۃ مصدر۔ گواہی دینا۔ الزور : الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونے کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیڑھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں۔ اور اسی معنی میں قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے تز اور عن کھفھم (18:17) سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے ۔ زور زور ازوار افعلال مصادر بمعنی انحراف۔ چونکہ جھوٹ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس کو شور کہا جاتا ہے۔ الزور یا تو بوجہ منصوب ہے یا یہ مضاف الیہ ہے اور مضاف شھادۃ محذوف ہے ۔ مضاف کا حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام لایا گیا اور اسی کی مطابقت سے منصوب سے ای انھم لایشھدون شھادۃ الزور۔ الغولغو ہر اس حرکت کو کہتے ہیں جو عبث اور لا یعنی ہو آخرت کے اعتبار سے یا دنیا کے اعتبار سے بیہودہ جس میں خیر کا کوئی پہلو نہ ہو کراما : کریم کی جمع بزرگانہ انداز سے۔ ای مروا باہل اللغو والمشتغلین بہ مروا معرضین عنھم کراما مکرمین انفسھم من الخوض معہم فی لگوھم یعنی جب وہ اتفاقا بیہودہ لوگوں کے پاس سے جو لغویات میں مشغول ہوں گزرتے ہیں تو بڑے باوقار اور باعزت طریقے سے پہلو تہی کرکے نکل جاتے ہیں اور ان کی لغویات میں شریک ہونے سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ اسی مضمون میں اور جگہ ارشاد ربانی ہے واذا سمعوا اللغوا عرضوا عنہ وقالوا لنا اعمالنا ولکم اعمالک سلم علیکم لا نبتغی الجاہلین (28:55) اور جب وہ یعنی اہل ایمان سنتے ہیں کسی بیہودہ بات کو تو منہ پھیر لیتے ہیں اس سے اور کہتے ہیں ہمارے لئے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال وقت ضائع نہ کرو) ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ کراما ضمیر فاعل مروا کا یا حال ہے یا تمیز، اور بدیں وجہ منصوب ہے۔ ذکروا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب ۔ بمعنی حال۔ (جب) ان کو سمجھایا جاتا ہے (جب) انہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ بایت ربھم : ربھم مضاف مضاف الیہ۔ دونوں مل کر مضاف الیہ ایت مضاف، باء بمعنی بذریعہ۔ یعنی بذریعہ ان کے رب کی آیات کے۔ لم یخروا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ وہ نہیں گرپڑتے۔ خر یخر (باب ضرب) خرو خرور مصدر بلندی سے پستی میں گرنا۔ جیسے کانما خر من السماء (22:31) تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گرپڑے۔ اور وخر موسیٰ صعقا (7:143) اور موسیٰ بیہوش ہوکر گڑ پڑے۔ خر علی۔ اچانک آپڑنا۔ اندھا دھند گرپڑنا۔ بغیر کسی نظم و ترتیب کے گرپڑنا۔ علیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع ایت ربھم ہے۔ صما۔ بہرے اصم کی جمع۔ عمیانا۔ اندھے۔ اعمی کی جمع ۔ ہر دو صما و عمیانا ضمیر فاعل لم یخروا سے حال ہیں لم یخروا علیہا صما و عمیانا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں : (1) لفظی ترجمہ یہ ہوگا۔ تو وہ ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گڑپڑتے۔ (2) نمبر (1) کی روشنی میں درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (ا) جملہ میں خرور کی نفی نہیں ہے بلکہ الصم اور العمی کی نفی ہے یعنی جب ان کو (عباد الرحمن کو) ان کے پروردگار کی آیات نصیحت کے لئے سنائی جاتی ہیں تو وہ بہروں اور اندھوں کا ساطرز عمل اختیار نہیں کرتے بلکہ ان کو گوش ہوش سے سنتے ہیں اور چشم بینا سے دیکھتے ہیں اور غور و فکر کرکے آیات کے اسرار و معارف تک آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ (ب) اگر جملہ میں نفی خرور نہیں بلکہ اثبات ہے (جیسا کہ صاحب کشاف نے لکھا ہے) لیس بنفی للخرور وانما ھو اثبات لہ ونفی للصم والعمی۔ یعنی خرور کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کا اثبات ہے اور نفی الصم والعمی (بہرہ پن اور اندھا پن) کی ہے تو عبارت یوں بھی ہوسکتی ہے اذا ذکروا بایت ربھم خروا علیہا صما و عمیانا ای لا یسمعون ما فیہما من الحق ولا یبصرونہ (اضواء القرآن) اس صورت میں ضمیر فاعل کا مرجع الکفار ہیں ۔ جو عباد الرحمن کے تذکرہ کے بعد مذکور ہیں۔ یعنی جب ان کے (کفار کے) رب کی آیات نصیحت کے لئے ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر گرپڑتے ہیں ان میں جو حق کی بات ہے نہ اس کو سنتے ہیں اور نہ ہی اس کو چشم حق شناس سے دیکھتے ہیں۔ اس مضمون کو اور جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے :۔ واذا تتلی علیہ ایتنا ولی مستکبرا کان لم یسمعھا کان فی اذنیہ وقرا (31:7) اور جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر کرتا ہوا منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہیں گویا اس کے کانوں میں ثقل ہے۔ لیکن بیشتر مفسرین نے (2: ا) کو ہی اختیار کیا ہے اور سلسلہ کلام میں بھی قابل ترجیح یہی ہے۔
Top