Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 102
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ١ؕ مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا : نہ طٰٓئِرٍ : پرندہ يَّطِيْرُ : اڑتا ہے بِجَنَاحَيْهِ : اپنے دو پروں سے اِلَّآ : مگر اُمَمٌ : امتیں (جماعتیں اَمْثَالُكُمْ : تمہاری طرح مَا فَرَّطْنَا : نہیں چھوڑی ہم نے فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مِنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز ثُمَّ : پھر اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب يُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جائیں گے
اور ہم ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد کا پورا کرنا نہ پایا اور ہم نے ان میں سے اکثر کو نافرمان ہی پایا۔
پھر فرمایا (وَ مَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِھِمْ مِّنْ عَھْدٍ ) (اور ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد کا پورا کرنا نہ پایا) انسان کا یہ عجیب مزاج ہے کہ جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے اور بہت پکا مشرک بھی اپنے باطل معبودوں کو بھول جاتا ہے اور یہ وعدے کرنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت دور ہوگئی تو ایمان قبول کرلوں گا اور شرک سے پرہیز کروں گا لیکن مصیبت دور کرنے کے بعد وہ اپنے عہد کو بھول جاتا ہے اور پھر شرک اور کفر پر ہی جما رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی پاسداری نہیں پائی۔ پھر فرمایا (وَ اِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَھُمْ لَفٰسِقِیْنَ ) (اور بیشک ہم نے ان میں سے اکثر کو فاسق پایا) جو اطاعت و فرمانبر داری سے دور ہی رہے۔ لفظ ” اکثر “ سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا اور اپنے عہد کو پورا کیا۔ عہد کو پورا نہ کرنا اور بار بار توڑ دینا، اس کا کچھ بیان فرعون اور اس کی قوم کی بد عہدیوں کے ذیل میں دو رکوع کے بعد مذکور ہے۔ وَ ھو قولہ تعالیٰ (لَءِنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ اِلٰی قولہ اِذَا ھُمْ یَنْکُثُوْنَ ) جو لوگ مصیبتوں کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہی نہیں بلکہ یوں کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا ہی ہوتا رہتا ہے ہمارے باپ دادا بھی تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کا بیان اس رکوع سے پہلے رکوع میں تھا۔ یہ لوگ اللہ کی طرف سے مصائب کو سمجھتے تو وعدے کرتے، اس رکوع میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مصائب کے وقت وعدے کرتے ہیں پھر مصیبت ٹل جانے کے بعد وعدہ فراموش ہوجاتے ہیں۔
Top