Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے ایسا پایا کہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے اور اکثروں کو ایسا ہی پایا کہ یک قلم نافرمان ہو گئے
عہد شکنی ان کی فطرت ثانیہ ہے وعدہ کر کے توڑنا ان کا معمول ہے : 113: اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ ان کی اس حالت پر زیادہ غمگین نہ ہوں ان نافرمانوں کی سرشت اور ذہنیت ہمیشہ یہی رہی ہے سو آپ ﷺ ان پر زیادہ غم نہ کریں۔ رہی یہ بات کہ اس جگہ عہد سے کون سا عہد مراد ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد ” عہد الست “ ہے جو ازل میں تمام انسانوں سے لیا گیا جس کے جواب میں ان سب نے ” بلی “ کہا تھا لیکن دنیا میں آکر اکثر لوگ اس کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی لعنت میں گرفتار ہوگئے اس لئے یہاں فرمایا گیا کہ ” ہم نے ان میں سے اکثروں کو ایسا پایا کہ وہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے۔ “ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رجی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد ایمان ہے یعنی عہد ایمان اطاعت ہے اور اس طرح کی جتنی تعبیرات کی گئی ہیں سب صحیح اور درست ہیں کیونکہ جب کوئی شخص یا قوم ایک فطری چیز سے انکار کر دے تو اس فطرت کے عہد کی جس طرح تعبیر کی جائے گی درست اور صحیح ہی ہوگی۔ اللہ نے ایک چیز انسان کی فطرت میں ودیعت فرما دی اور پھر اس فطرت سے کام نہ لیتے ہوئے انسانیت کی بجائے حیوانیت کو اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ اس نے اس انسانیت کے عہد سے انکار ہی کیا ہے اور روز مرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے اس عہد انسانیت کے منکر انکار ہی پر جان دیتے ہیں اور یہی کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل سورة الانعام کی آیت 109 ، 110 میں بیان کردی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں۔
Top