Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں (عہد کا نباہ) نہیں دیکھا۔ اور ان میں اکثروں کو (دیکھا تو) بدکار ہی دیکھا
وما وجدنا لاکثرہم من عہد وان وجدنا اکثرہم لفسقین۔ اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفاء عہد نہ دیکھا اور اکثر لوگوں کو ہم نے بےحکم ہی پایا۔ تلک القری یعنی گزشتہ اقوام کی بستیاں قوم نوح ‘ قوم عاد ‘ قوم ثمود ‘ قوم لوط اور قوم شعیب کی بستیاں من انباۂ ا۔ من تبعضیہ ہے یعنی کچھ واقعات بعض خبریں۔ البینت معجزات اور وہ دلائل جو ان کی رسالت کو ثابت کرتی ہیں۔ ماکانوا لیؤمنوا لان یومنوا تھا ان مصدری کو حذف کردیا گیا۔ لام حجود تاکید نفی ایمان کے لئے ہے اور مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے یعنی وہ ایماندار نہ تھے۔ بما کذبوا من قبل یعنی پیغمبروں کی بعثت سے پہلے جو توحید کی تکذیب کرتے تھے اس پر برابر قائم رہے ایمان نہ لائے۔ یا یہ مطلب کہ پیغمبر جس شریعت اور رسالت کو لے کر ان کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس کی تکذیب کی اور پھر اس تکذیب پر ساری عمر قائم رہے پیغمبروں کی دعوت نے ان پر کوئی اثر نہ پیدا کیا نہ پیہم معجزات سے ان کی انکاری حالت بدلی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور سدی نے آیت کے مطلب کی توضیح اس طرح کی ہے کہ بروز میثاق جو ان سے ایمان کا عہد لیا گیا تھا اور زبانوں سے انہوں نے اقرار کیا تھا مگر دلوں میں تکذیب پوشیدہ رکھی تھی تو پیغمبروں کی بعثت کے بعد بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے نہ ایمان لائے۔ پس اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ مجاہد نے کہا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہلاک کئے جانے والے سے پہلے جس طرح انہوں نے تکذیب کی تھی اگر ہم ہلاکت کے بعد ان کو پھر زندہ کردیتے تب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے تقریباً ایسا ہی مضمون دوسری آیت میں آیا ہے فرمایا : (ولو ردوا لعادوا لما نہوا عنہ) ۔ یمان بن ذباب نے توضیح مطلب اس طرح کی ہر نبی نے اپنی قوم کو عذاب سے ڈرایا لیکن انہوں نے پیغمبر کی تصدیق نہیں کی۔ نتیجہ میں اللہ نے ان کو ہلاک کردیا پھر ان کے بعد دوسری قومیں آئیں اور ان کو پیغمبروں نے عذاب سے ڈرایا لیکن انہوں نے بھی گزشتہ اقوام کی طرح اس چیز کی تکذیب کی جس کی تکذیب گزشتہ قومیں کرتی چلی آئی تھیں۔ اسی کی مثل دوسری آیت آئی ہے فرمایا ہے (مَا اَتَی الَّذِیْنَ مِّنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ الاَّ قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ) ۔ کَذِلِکَاسی طرح یعنی جس طرح گزشتہ کافروں کے دلوں پر ہم نے بند لگا دیئے تھے اسی طرح آپ کی قوم کے کافروں کے متعلق ہم نے لکھ دیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ لہٰذا تمام نشانیاں اور ڈراوے دیکھنے کے بعد بھی ان کے دل نرم نہیں پڑیں گے وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِہِمْیعنی اکثر لوگوں کا یا ہلاک کردہ قوموں میں سے اکثر کا۔ اوّل صورت میں یہ جملہ مستقل اور اعتراضیہ ہوجائے گا۔ من عھدٍ (مضاف محذوف ہے) یعنی ایفاء عہد۔ عہد سے مراد ہے ‘ عہد میثاق جو حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے تمام ذریات کو نکال کرلیا گیا تھا یا وہ عہد مراد ہے کہ مصیبت اور دشمنوں کے خوف سے گھر کر جب ان لوگوں نے کہا تھا لئن انجیتنا من بعدہ لنکونن من الشّٰکِرِیْنَ اگر تو ہم کو اس سے بچالے گا تو ہم شکر ادا کرنے والوں میں سے (یعنی مؤمنوں اور اطاعت گزاروں میں سے) ہوجائیں گے۔ وَانْ وَّجَدْنَا اَکْثَرَہُمْ لَفَاسِقِیْنَعلماء کوفہ کا قول ہے کہ اناس جگہ نافیہ ہے اور ل بمعنی الاَّ (یعنی استثنائیہ) ہے۔ علمائے بصرہ کے نزدیک یہ اِنْ مخففہ ہے اس صورت میں وَجَدْنَا کا معنی ہوگا عَلِمْنَاکیونکہ ان مخففہ صرف ان افعال پر داخل ہوتا ہے جو مبتدا خبر پر داخل ہوئے ہوں۔
Top