Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
اور نہ پایا ان کے اکثر لوگوں میں ہم نے عہد کا نباہ، اور اکثر ان میں پائے نافرمان
تیسری آیت میں ارشاد فریا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے ایفائے عہد کرنے والا نہ پایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد الست ہے جو ازل میں تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ان سب کی روحوں کو پیدا فرما کرلیا گیا تھا، جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا پروردگار نہیں، اس وقت تمام ارواح انسانی نے اقرار اور عہد کے طور پر جواب دیا بلی یعنی ضرور آپ ہمارے رب ہیں، دنیا میں آکر اکثر لوگ اس عہد ازل کو بھول گئے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی لعنت میں گرفتار ہوگئے، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد نہ پایا، یعنی عہد کی پاسداری اور ایفاء نہ پایا۔ (کبیر) اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد ایمان ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا، اس میں عہد سے عہد ایمان وطاعت مراد ہے، تو آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نے ایمان وطاعت کا عہد ہم سے باندھا تھا پھر اس کی خلاف ورزی کی، عہد باندھنے سے مراد یہ ہے کہ عموما انسان جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت کتنا ہی فاسق فاجر ہو اس کو بھی خدا ہی یاد آتا ہے اور اکثر دل یا زبان سے عہد کرتا ہے کہ اس مصیبت سے نجات مل گئی تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں لگ جاؤں گا نافرمانی سے بچوں گا جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سے لوگوں کا یہ حال ذکر کیا گیا ہے، لیکن جب ان کو نجات ہوجاتی ہے اور آرام و راحت ملتی ہے تو پھر ہویٰ و ہوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس عہد کو بھول جاتے ہیں۔
آیت مذکورہ میں لفظ اکثَرَ سے اس کی طرف اشارہ بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ تو ایسے شقی ہوتے ہیں کہ مصیبت کے وقت بھی انہیں خدا یاد نہیں آتا اور اس وقت بھی وہ ایمان وطاعت کا عہد نہیں کرتے تو ان سے بد عہدی کی شکایت کے کوئی معنی نہیں، اور بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جو عہد کو پورا کرتے ہیں، ایمان و اطاعت کے حقوق ادا کرتے ہیں اس لئے فرمایا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں ایفائے عہد نہ پایا اس کے بعد فرمایا وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو اطاعت و فرماں برداری سے خارج پایا۔
یہاں تک پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے پانچ واقعات کا بیان کرکے موجودہ لوگوں کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے تنبیہات فرمائی گئی ہیں۔ اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ ؑ کا تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا، جس میں واقعات کے ضمن میں سینکڑوں احکام و مسائل اور عبرت و نصیحت کے بیشمار مواقع ہیں، اور اسی لئے قرآن کریم میں اس واقع کے اجزاء بار بار دھرائے گئے ہیں۔
Top