Tadabbur-e-Quran - Maryam : 13
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : کیا وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : اس کو خود گھڑ لیا ہے قُلْ : آپ کہ دیں فَاْتُوْا : تو تم لے آؤ بِعَشْرِ سُوَرٍ : دس سورتیں مِّثْلِهٖ : اس جیسی مُفْتَرَيٰتٍ : گھڑی ہوئی وَّادْعُوْا : اور تم بلا لو مَنِ اسْتَطَعْتُمْ : جس کو تم بلا سکو مِّنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : اللہ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ہے ؟ ان سے کہو کہ پھر تم ایسی ہی دس سورتیں گھڑی ہوئی لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو
مخالفین قرآن کو متبادل کلام پیش کرنے کا چیلنج : اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔ یہ استفہام اظہار تعجب کی نوعیت کا ہے۔ اوپر کے اعتراضات تو سادہ اسلوب میں نقل کردیے ہیں، لیکن قرآن کو پیغمبر کی گھڑی ہوئی کتاب قرار دینا ایک نہایت عجیب بات تھی۔ بالخصوص ان لوگوں کی زبان سے جو کلام کے حسن و قبح کے نقاد اور اس کے ایجاز و اعجاز کے قدر دان بھی تھے اور موازنہ اور مقابلہ کے لیے ان کے پاس اپنے چوٹی کے شاعروں اور خطیبوں کے کلام کا ایک دفتر بھی موجود تھا۔ اس وجہ سے اس کا ذکر تعجب کے اسلوب میں فرمایا کہ اگر یہ بےشرم ہو کر یہ بات کہتے ہیں تو اس کا فیصلہ نہایت آسانی سے یوں ہوسکتا ہے کہ وہ بھی ایسی ہی دس سورتیں گھڑی ہوئی پیش کردیں اور اگر یہ کام تنہا ان کے بس کا نہ ہو تو اپنے ان شرکاء اور شفعاء کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لیں جن کو یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں۔ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ، میں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ جن کو تم پوجتے ہو یہ خدا کے شریک ہیں۔ اگر یہ خدا کے شریک ہیں تو یہ سب سے زیادہ اہم موقع ہے کہ وہ قرآن کی نظیر پیش کرنے میں تمہاری مدد کریں۔ اس لیے کہ اس قرآن کی بدولت سب سے زیادہ خطرے میں خود ان کی خدائی ہے۔ دوسرا مفہوم اس کے اندر یہ ہے کہ اگر تم اپنے اس گمان میں سچے ہو کہ یہ قرآن محمد ﷺ کی اپنی تصنیف ہے جس کو وہ لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے جھوٹ موٹ خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ سورة طور میں ہے : " ام یقولون تقولہ بل لایوممون۔ فلیاتوا بحدیث مثلہ ان کانوا صدقین : کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو گھڑ لیا ہے بلکہ وہ ایمان نہیں لانا چاہتے اگر وہ اپنے اس گمان میں سچے ہیں تو اس کے مانند کوئی کلام خود پیش کردیں۔ (طور :33۔ 34)۔ تحدی کی نوعیت : اس سورة میں ان سے دس سورتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سورة یونس آیت 38 میں ایک ہی سورة کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بقرہ آیت 23 میں بھی ایک ہی سورة کا مطالبہ ہے۔ بنی اسرائیل آیت 88 میں " مثل قرآن " کا مطالبہ ہے اور سورة طور کی مذکورہ بالا آیت میں " بحدثیث مثلہ " کے الفاظ ہیں جس کا واضح مفہوم یہی معلوم ہوتا ہے کہ مراد قرآن کی مانند کلام ہے۔ عام اس سے کہ وہ ایک سورة کی شکل میں ہو یا دس سورتوں کی شکل میں، یا قرآن وہ کتاب کی شکل میں۔ عام طور پر لوگوں نے ان مختلف آیتوں کو سامنے رکھ کر اس تحدی کی ایک تدریج و ترتیب قائم کی ہے کہ پہلے ان سے مانند قرآن کتاب پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا، ج وہ اس سے عاجز رہے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیا گیا، جب وہ اس سے بھی قاصر رہے تو ادنی درجہ میں ان سے ایک ہی سورة پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن وہ اس کا بھی حوصلہ نہ کرسکے۔ اگرچہ یہ بات بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی صحت کا انحصار اس امر پر ہے کہ جن سورتوں میں یہ تحدی مذکور ہوئی ہے ان کا زمانہ نزول تعین کے ساتھ معلوم ہو۔ چونکہ یہ معاملہ مشکل ہے اس وجہ سے ہمارے نزدیک صائب رائے یہ ہے کہ قرآن نے شروع ہی میں، جیسا کہ سورة طور کی مذکورہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے، قرآن کے مانند کلام پیش کرنے کا مطالبہ کیا، خواہ وہ دس سورتوں کی شکل میں ہو یا ایک ہی سورة کی شکل میں، بعد میں اسی اجمال کو حسب موقع مختلف الفاظ میں واضح فرمایا گیا۔ ہمارے نزدیک اس کو عام معنی میں تحدی سمجھنا بھی کچھ صحیح نہیں ہے۔ تحدی اور چیلنج کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں گمان ہو کہ حریف میدان مقابلہ میں اترنے اور قسمت آزمائی کا حوصلہ رکھتا ہے۔ جب یہ واضح ہو کہ حریف کی ساری مشیخت محض حقیقت سے گریز و فرار کے لیے ایک بہانہ ہے تو اس کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ چیلنج کرنے کے بجائے یہ بہتر ہوتا ہے کہ پہلا ہی وار اس کے لیے بھرپور ہو۔
Top