Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 32
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ وہ يُّطْفِئُوْا : وہ بجھا دیں نُوْرَ اللّٰهِ : اللہ کا نور بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ سے (جمع) وَيَاْبَى اللّٰهُ : اور نہ رہے گا اللہ اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يُّتِمَّ : پورا کرے نُوْرَهٗ : اپنا نور وَلَوْ : خواہ كَرِهَ : پسند نہ کریں الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں۔ حالانکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی بات منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے۔ اگرچہ کافروں کو ناگوار ہو۔
پھونکوں سے اللہ تعالیٰ کا نور بجھایا نہ جائے گا ان دونوں آیات میں دشمنان اسلام کے عزائم باطلہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، یعنی اسلام پر اعتراض کر کے مہمل باتیں کر کے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہیں۔ ان کی باتوں سے اسلام کا نوربجھنے والا نہیں اور ان کی شرارتوں سے اسلام کو ٹھیس لگنے والی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ اس کا نور پورا ہو کر رہے گا۔ اگرچہ کافروں کو نا گوار ہو اور برا لگے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو نا گوار ہو۔ پہلی آیت کے ختم پر (وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ) فرمایا اور دوسری آیت کے ختم پر (وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) فرمایا۔ جو لوگ شرک کی وجہ سے مشرک ہیں اور جو لوگ مشرک نہیں کسی دوسری وجہ سے کافر ہیں مثلاً خدائے تعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتے یا اس کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں یا اس کی کتابوں اور اس کے نبیوں کو جھٹلاتے ہیں ان دونوں قسم کے دشمنوں کی نا گواری کا تذکرہ فرما دیا کہ کافر اور مشرک یہ جو چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین نہ پھیلے اور اس کا غلبہ نہ ہو ان کے ارادوں سے کچھ نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور غالب فرمائے گا۔ یہ جلتے رہیں۔ حسد کرتے رہیں۔ ان کی نیتوں اور ارادوں پر خاک پڑے گی اور دین اسلام بلند اور غالب ہو کر رہے گا۔ غالب ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ دلیل اور حجت کے ساتھ غلبہ ہو اور یہ غلبہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کوئی بھی شخص خواہ دین آسمانی کا مدعی ہو، خواہ بت پرست ہو۔ خواہ آتش پرست ہو خواہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر ہو، خواہ ملحد اور زندیق ہو وہ اپنے دعویٰ اور اپنے دین کو لے کر دلیل کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے نہیں آسکتا اور اپنے دعویٰ کو صحیح ثابت نہیں کرسکتا۔ اسلام کے دلائل سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین، زنادقہ اور ملحدین سب پر حجت قائم ہے۔ اس اعتبار سے دین اسلام ہمیشہ سے غالب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامل بھی فرما دیا اور قرآن مجید میں اعلان فرما دیا۔ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ) (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی) اسلام دین کامل ہے انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ دیگر تمام ادیان کے ماننے والے صرف چند تصورات اور خود تراشیدہ معتقدات کو لیے بیٹھے ہیں۔ عبادات، معاملات، مناکحات، معیشت اور معاشرت، سیاست اور حکومت، اخلاق اور آداب کا کوئی مذہبی نظام ان کے پاس نہیں ہے۔ خود سے قوانین بنا لیتے ہیں اور پھر انہیں توڑ دیتے ہیں (بلکہ یوں کہتے ہی نہیں کہ یہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے) خود ساختہ قانون کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے منسوب کریں۔ اسلام نے انسانوں کو ہر شعبہء زندگی کے احکام دیئے ہیں اور اخلاق عالیہ کی تعلیم دی ہے جن کی تصریحات اور تفصیلات قرآن مجید میں اور احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ دوسری صورت اسلام کے غالب ہونے کی یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والے کفر و شرک چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو اور ان کا راج ہو۔ ایسا قیامت سے پہلے ضرور ہوگا۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی ( علیہ السلام) کے زمانے میں اسلام خوب اچھی طرح پھیل جائے گا اور زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی جیسا کہ احادیث شریفہ میں اس کی تصریح آتی ہے۔
Top