Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 46
قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓئِرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ
قَالُوا : وہ بولے اطَّيَّرْنَا : برا شگون بِكَ : اور وہ جو وَبِمَنْ : اور وہ جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ (ساتھی) قَالَ : اس نے کہا طٰٓئِرُكُمْ : تمہاری بدشگونی عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم قَوْمٌ : ایک قوم تُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہو
وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لئے شگون بد ہو (صالح نے) کہا کہ تمہاری بدشگونی خدا کی طرف سے ہے بلکہ تم ایسے لوگ ہو جن کی آزمائش کی جاتی ہے
(27:47) اطیرنا ماضی جمع متکلم۔ تطیر تفعل مصدر۔ اصل میں تطیرنا تھا تا کو طاء میں مدغم کیا اور شروع میں ہمزہ وصل لایا گیا۔ اطیر تطیر کے اصل معنی پرندوں سے بدفالی لینے کے ہیں پھر اس کا استعمال ہر بدفالی کے لیے ہونے لگا۔ اطیرنا بک ہم تجھ سے برا شگون لیتے ہیں۔ ہم تجھ کو منحوس سمجھتے ہیں۔ طائرکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہاری قال بد۔ تمہارا شگون بد، تمہاری بری قسمت۔ تمہاری نحوست۔ تمہاری نامبارکی۔ اصل میں طائر کے معنی اڑنے والے کے ہیں مگر عرب میں جاہلیت کے زمانے میں پرندوں سے فال لیتے تھے پرندوں کو اڑاتے اگر وہ بائیں طرف کو اڑ جاتے تو برا شگون لیتے اور جس کام کے لئے شگون لیا گیا تھا اس کو نہ کرتے تھے۔ پھر یہ لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا جس سے برا شگون لیا جاوے اور اسے منحوس سمجھا جائے۔ مثلاً سفر پر جانے کے لئے گھر سے نکلے اور کالی بلی راستہ کاٹ کے نکل جائے وغیرہ۔ یعنی طائر کا لفظ بذات خود نحوست کی علامت بن گیا۔ لہٰذا طائرکم کے معنی تمہاری نحوست بری قسمت تو لکھی جا چکی ہے۔ اور جگہ ہے طائرکم معکم (36:19) تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ تفتنون ۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ تم فتنہ میں ڈالے جاتے ہو۔ فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا معلوم ہوجاوے۔ اسی لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے (بمعنی عذاب دینے) کے لئے بھی مستعمل ہے جیسے یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) جس دن ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا۔ یا ژوقوا فتنکم (51:14) اپنی شرارت کا مزہ چکھو۔ یعنی عذاب کا مزہ چکھو۔ کبھی اس کے معنی آزمائش کرنے اور امتحان کے بھی آتے ہیں۔ جیسے وفتناک فتونا (20:40) ہم تیری کئی بار آزمائش کی۔ بل انتم قوم تفتنون۔ البتہ تم ہی وہ لوگ ہو کہ عذاب میں پڑو گے۔
Top