Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور ادھیڑ ہو کر بھی اور وہ صالحین کے زمرے میں سے ہوگا۔
سیدنا مسیح کا گہوارے میں بات کرنا حضرت مریم کی پاکدامنی کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ تھا۔ اس معجزے کی بشارت بچے کی ولادت کی بشارت کے ساتھ ہی حضرت مریم کو اس لیے دے دی گئی کہ وہ مطمئن رہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر اپنی ایک عظیم نشانی کے ظہور کے لیے ان کو واسطہ بتایا ہے تو ان کے ناموس کو اعدا کی بد زبانیوں سے بچانے کے لیے بھی اس نے ایسا انتظام فرمایا ہے کہ کسی تہمت کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ اپنی ایک مومنہ و قانتہ بندی کو ساری خدائی کی تہمتوں کا ہدف بنا دے اور اس کی مدافعت میں کوئی ایسی زبان نہ کھولے جو سب کی زبانیں بند کردے۔ ”کہل“ کے معنی ادھیڑ کے ہیں۔ موجودہ انجیلوں سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ادھیڑ ہونے سے بہت پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے لیکن قرآن کی اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کو ضمنا حضرت عیسیٰ ؑ کے کہولت تک پہنچنے کی بھی بشارت دی گئی تھی۔ رسولوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی جو سنت رہی ہے اس کے لحاظ سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ انجیل میں بھی بعض اشارات اس کی تائید میں ہیں۔ مثلاً یوحنا 8 : 57 میں ہے۔ ”اور یہودیون نے اس سے کہا تیری عمر تو ابھی پچاس برس کی بھی نہیں ہے پھر کیا تو نے ابرہام کو دیکھا ہے“۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ایسے ہی شخص کو مخاطب کر کے کہی جاسکتی ہے جو پچاس سال کے قریب پہنچ رہا ہو۔۔ گہوارے میں کلام کے ساتھ ان کے کہولت کے کلام کا حوالہ دینے سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ ان کی گہوارے کی بات بچوں کی سی نہیں ہوگی بلکہ اس کے اندر بھی پختہ سن و سال کی دانائی ہوگی۔ اس لیے کہ یہ بات من جانب اللہ ہوگی۔ آخر میں ومن الصلحین فرما کر، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، یہ واضح کردیا کہ وہ صالحین کے زمرے میں سے ہوں گے یعنی ان تمام کمالات و اوصاف کے باوجود یہ نہیں ہے کہ ان کو الوہیت کا کوئی درجہ حاصل ہوجائے، بس وہ اللہ کے صالح بندوں میں سے ہوں گے۔
Top