Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 46
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَيُكَلِّمُ : اور باتیں کریگا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں وَكَهْلًا : اور پختہ عمر وَّمِنَ : اور سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار
اور وہ لوگوں سے گفتگو کریں گے۔ گہواروہ میں بھی اور پختہ عمر میں بھی اور صالحین میں سے ہوں گے،118 ۔
،118 ۔ (نہ کہ معاذ اللہ ساحر یا شعبدہ باز یا بداخلاق جیسا کہ یہود نے افتراء کر رکھا ہے) لیکن بایں عظمت واجلال بہرحال دوسرے ہی بندگان صالح کی طرح ہوں گے۔ (آیت) ” من الصلحین “ نہ کہ ان سے مافوق کچھ اور جیسا کہ مسیحیوں نے اپنے دل سے ٹھہرا لیا ہے۔ (آیت) ” یکلم الناس “ اس سے اشارہ نکلتا ہے آپ کے جوش تبلیغ کی جانب۔ لوگوں سے آپ کی گفتگو قصہ کہانی کی نہیں، یقیناً توحید وتصحیح عقائد ہی پر ہوگی۔ انجیلوں سے بھی جتنی شہادتیں ملتی ہیں سب سے تائید آپ کے جوش تبلیغ ہی کی ہوتی ہے۔ (آیت) ” فی المھد “۔ یعنی بالکل بچپن سے۔ یا اس سن سے جو گہوارہ میں لیٹے رہنے کا ہوتا ہے۔ ای طفلا (کشاف) حال، کونہ طفلا (بیضاوی) اتنی کم سنی سے گفتگو پر یہ قدرت اعجازی رنگ میں تھی، انجیلی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بارہ سال کے سن میں تبلیغ کرنے لگے تھے۔ اور اچھے اچھے دانا آپ کی گفتگو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (لوقا، 2:42، 47) (آیت) ” کھلا “۔ سے مراد پختہ عمر سے ہے یہ نہیں بچپن اور بڑھاپے کا درمیانی زمانہ اس کا اطلاق 30 سے اوپر 50 سال کے سن تک ہوتا ہے۔ الکھل بین حال الغلومۃ وحال الشیخوخۃ (قرطبی) الکھل ما بین الشاب والشیخ (روح) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بچپن اور پھر پختہ عمری کے ذکر سے اشارہ اس طرف بھی ہوگیا کہ ہر انسان کی طرح آپ کا نشوونما بھی تدریجا ہوتا رہا۔ اور یہ نشوونما خود ایک مستقل دلیل رد الوہیت پر ہے۔
Top