Anwar-ul-Bayan - Faatir : 11
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوَلَمَّآ : کیا جب اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچی مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَدْ اَصَبْتُمْ : البتہ تم نے پہنچائی مِّثْلَيْھَا : اس سے دو چند قُلْتُمْ : تم کہتے ہو اَنّٰى هٰذَا : کہاں سے یہ ؟ قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (اپنے پاس) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قادر
(بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (احد کے دن کفار کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے تو تم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آپڑی کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا) خدا ہر چیز پر قادر ہے
(3:165) اصابتکم۔ ماضی واحد مؤنث غائب کم ضمیر جمع مذکر حاضر ۔ وہ (مصیبت) تم کو پہنچی۔ اصبتم۔ تم نے پہنچائی۔ اصاب یصیب (ضرب) لازم اور متعدی ہر دو طرح مستعمل ہے۔ اصابۃ سے جس کے معنی پہنچانا۔ پالینا۔ مصیبۃ۔ وہ مشکل جو آپہنچے۔ اولما۔ میں واؤ عطف کے لئے ہے اور ہمزہ استفہام کے لئے۔ لما جب الما کیا جب۔ آیت کا شروع کا جملہ کچھ اس طرح ہوگا۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قلتم انی ھذا (و) قد اصبتم مثلہا۔ کیا جب ّاحد میں) تم کو مصیبت (بصورت قتال و ہزیمت) پہنچتی تو تم پکار اٹھے کہاں سے آپڑی یہ مصیبت (حالانکہ ہم مسلمان ہیں اور نبی کریم ﷺ ہم میں موجود ہیں ۔ ( حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بدر کے غزوہ میں) تم نے اس سے دوگنی مصیبت ان کو پہنچائی تھی (جنگ احد میں ستر (70) صحابی شہید ہوئے تھے اور بدر کی جنگ میں مشرکین کے ستر (70) آدمی قتل ہوئے اور ستر قید کر لئے گئے۔ اور پھر بدر کی لڑائی فیصلہ کن تھی اور کفار کی شکست فاش تھی جبکہ احد میں پہلے مرحلہ پر مسلمانوں کا پلہ بھاری تھا اور آخر میں اپنی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن باوجود پلہ بھاری ہونے کے دشمن اپنی فتح کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکا) ۔
Top