Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 165
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوَلَمَّآ : کیا جب اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچی مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَدْ اَصَبْتُمْ : البتہ تم نے پہنچائی مِّثْلَيْھَا : اس سے دو چند قُلْتُمْ : تم کہتے ہو اَنّٰى هٰذَا : کہاں سے یہ ؟ قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (اپنے پاس) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قادر
اور کیا جب تمہیں ایک مصیبت پہنچی جس کی دونی مصیبت تم نے پنچائی تو تم نے کہا کہ یہ کہاں سے آگئی ؟ کہہ دو یہ تمہارے اپنے ہی پاس سے ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
”اَ“ حرفِ استفہام ہے اور ’ و ‘ حرفِ ربط ہے، عربی زبان میں حرف استفہام کی اصلی جگہ جملہ کے آغاز ہی میں ہے مثلا افبھذا الحدیث انتم مدھنون، الواقعہ : 81۔ یہ حرف استفہام اظہار تعجب کے لیے ہے اور حرفِ ربط اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بات بھی منجملہ ان اعتراضات کے ایک اعتراض ہے جن کے جواب اوپر دیے گئے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ : اوپر یہ بات گزر چکی ہے کہ کچھ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ جو شخص خدا کا رسول ہو اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیوں اور مصیبتوں سے محفوظ ہونا چاہئے، جب وہ کسی مہم پر نکلیں تو ان کے ساتھ خدا کے فرشتوں کی مدد ہونی چاہئے، جب انہیں کوئی جنگ پیش آئے تو ضروری ہے کہ وہ اس میں فتحمند ہوں، اس خیال کے لوگوں کو احد کی شکست سے قدرتی طور پر بڑا دھکا لگا، وہ سوچنے لگ گئے کہ اگر اسلام ایک سچا دین ہے اور محمد ﷺ سچ مچ خدا کے رسول ہیں تو یہ شکست ان کو کہاں سے پیش آئی، کمزوروں کی اس نفسیاتی کیفیت سے منافقین نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس شکست کو آنحضرت ﷺ کے خلاف ایک دلیل کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنا شروع کیا، قرآن نے اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں تفصیل کے ساتھ اس غلط فہمی کو دور کیا ہے اور اہل حق کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں ان کے حکمت واضح فرمائی ہے۔ اس آیت میں پہلی بات یہ فرمائی کہ جو افتاد تمہیں پیش آئی یہ صرف تمہی کو پیش نہیں آئی کہ تم اس کو بدگمانی اور مایوسی کی دلیل بنا لو بلکہ اس سے دو چند نقصان تمہارے ہاتھوں تمہارے دشمنوں کو پہنچ چکا ہے۔ بدر میں تم نے دشمن کے 70 آدمی قتل کیے، 70 قیدی بنائے۔ احد میں بھی پہلے تمہارا ہی پلہ بھاری تھا اور تمہارے ہاتھوں دشمن کے کچھ آدمی قتل اور زخمی بھی ہوئے۔ لیکن بعد میں خود تمہاری غلطی سے تمہیں شکست ہوگئی، اللہ فتح اور شکست دونوں پر قادر ہے اور اس کی قدرت ہمیشہ اس کی حکمت کے تحت ظاہر ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اس افتاد کے سبب تم خود ہوئے ہو، اس کی وضاحت اوپر آیت 152 میں الفاظ کے ساتھ ہوچکی ہے وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْھُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۚ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۭ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ (اور اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب کہ تم خدا کے حکم سے ان کو تہ تیغ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ تم کمزور پڑگئے، تم نے معاملے میں اختلاف کیا اور تم نے نافرمانی کی جب کہ خدا نے تمہیں وہ چیز دکھا دی جس کو تم عزیز رکھتے تھے تم میں کچھ دنیا کے طالب تھے، کچھ آخرت کے، پھر خدا نے تمہارا رخ ان سے پھیر دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور اللہ نے تم سے درگزر کیا اور اللہ مومنوں پر بڑے فضل والا ہے)
Top