Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 165
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوَلَمَّآ : کیا جب اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچی مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَدْ اَصَبْتُمْ : البتہ تم نے پہنچائی مِّثْلَيْھَا : اس سے دو چند قُلْتُمْ : تم کہتے ہو اَنّٰى هٰذَا : کہاں سے یہ ؟ قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (اپنے پاس) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قادر
اور جس وقت تم کو ایسی مصیبت پہنچی جس کی دوگنی مصیبت تم پہنچا چکے ہو تو کیا تم یوں کہتے ہو کہ یہ کہاں سے ہے آپ فرما دیجئے یہ تمہاری ہی طرف سے ہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اولما اصابتکم مصیبۃ “ سے مراد ہے کہ بلاشبہ تم نے بدر کے دن مشرکوں کو دگنی تکلیف پہنچائی جتنی انہوں نے تم کو احد کے دن پہنچائی۔ (2) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں نے بدر کے دن مشرکوں میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا “ مسلمان کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے لیے مرجاتے ہیں جبکہ یہ مشرک ہیں فرمادیجئے ” قل ھو من عند انفسکم “ یہ تمہاری جانب سے ہے جو تم نے نبی اکرم ﷺ کی نافرمانی کی تھی یہ اس کی سزا ہے۔ (3) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جب صحابہ ؓ نے اپنے میں سے قتل ہونے والوں کو دیکھا احد کے دن تو کہنے لگے یہ کیسے ہوا ؟ کفار کو یہ طاقت نہ تھی کہ وہ ہم میں سے لوگوں کو قتل کرتے تو لوگوں نے اس بارے میں کہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ان کی قیدیوں کے بدلہ میں ہیں جن کو تم نے پکڑ لیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ان کو لوٹا دیا اور ان کے لیے دنیا ہی میں جلدی سزا دے دی تاکہ وہ اس (عذاب) سے آخرت میں سلامت رہیں۔ احد میں شہداء کی تعداد ستر تھی (4) ابن ابی شیبہ و ترمذی نے اس کو حسن کہا وابن جریر وابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمد ﷺ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے جو آپ کے صحابہ ؓ قیدیوں کو پکڑ لیا ہے اور اس نے آپ کو حکم فرمایا ہے کہ دو کاموں میں سے ایک کام کو چن لیں یا تو ان قیدیوں کی گردنیں مار دو یا اس کو فدیہ لے کر چھوڑ دو اور مسلمانوں میں سے اتنی ہی تعداد شہید ہوگی رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو بلوایا اور یہ بات ان سے فرمائی تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ہمارے کنبہ اور ہمارے بھائی ہیں ہم ان سے فدیہ لیں گے پس اس فدیہ کے ذریعہ ہم اپنے دشمن کے خلاف طاقت حاصل کریں گے برابر شہید ہوں گے اور اس بات کو ہم ناپسند نہیں کرتے (اس وجہ سے) احد کے دن مسلمانوں میں سے ستر آدمی شہید ہوئے بدر والوں کے قیدیوں کی گنتی کے برابر۔ (5) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن بصری ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل ھو من عند انفسکم “ سے مراد یہ سزا ہے تمہارے لیے تمہاری نبی ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے جب آپ نے فرمایا تھا کہ تم ان کی تابعداری نہ کرنا لیکن انہوں نے ان کی تابعداری کی۔ (6) ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل ھو من عند انفسکم “ یعنی یہ سزا ہے نبی ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے جب کہ آپ نے فرمایا تھا کہ ان کی تابعداری نہ کرنا (اپنی جگہ پر قائم رہنا) ۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا “ سے مراد ہے کہ اس احد کے دن مسلمانوں میں سے ستر آدمی شہید ہوئے جبکہ مسلمانوں نے بدر کے دن مشرکین میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم “ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا احد کے دن جب ابو سفیان اور مشرکین آگے آئے کہ ہم محفوظ جگہ میں ہیں یعنی اس سے مراد مدینہ منورہ ہے مشرکوں کو بلاؤ کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوں یہاں ہم ان سے لڑیں گے تو انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم مدینہ منورہ کے راستوں میں لڑنے کو ناپسند کرتے ہیں اور ہم زمانہ جاہلیت میں حملہ سے اپنا دفاع کرتے تھے تو اسلام میں تو بدرجہ اولیٰ دفاع کرسکتے ہیں اور اس کو ناپسند کرتے ہیں تو اسلام زیادہ حق دار ہے اس بات کا کہ اس میں ہم مدینہ میں لڑنے کو ناپسند کریں ہم کو دشمن قول کی طرف لے کر نکلو آپ (اندر) تشریف لے گئے اور اپنا ہتھیار پہن لیا تو صحابہ (ایک دوسرے کو) ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ نبی ﷺ نے ایک رائے پیش کی اور جبکہ تم نے ایک اور رائے پیش کی اے حمزہ ! تم جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ ہم آپ کی رائے کے تابع ہیں حضرت حمزہ ؓ تشریف لائے اور ان کو پیغام پہنچایا تو آپ نے فرمایا کسی نبی کے یہ لائق نہیں کہ جب وہ ہتھیار پہن لے تو ان کو جنگ کئے اتار دے اور عنقریب تم میں مصیبت پہنچے گی تو صحابہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! یہ مصیبت خاص ہوگی یا عام ہوگی تو آپ نے فرمایا عنقریب تم اس کو دیکھو گے۔ (8) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” ولیعلم المؤمنین۔ ولیعلم الذین نافقوا “ سے مراد ہے تاکہ ہم تمیز کرلیں مومنین اور منافقین کے درمیان (اور فرمایا) لفظ آیت ” وقیل لہم تعالوا “ سے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھ مراد ہیں۔ (9) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” او ادفعوا “ سے مراد ہے کہ اپنے آپ کو زیادہ کرلو اگر تم نہیں لڑتے ہو۔ (10) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو حازم (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے سہل بن سعید (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں اپنے گھر کو بیچ دوں اور میں سرحد پر چلا جاؤں اور میں مسلمانوں اور ان دشمنوں کے درمیان کھڑا ہوجاؤں میں نے کہا آپ ایسا کرسکتے ہیں حالانکہ آپ کی آنکھیں ختم ہوچکی ہیں تو انہوں نے فرمایا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو نہیں سنا لفظ آیت ” تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا “ یعنی میں تعداد میں اضافہ کروں گا لوگوں کے ساتھ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (11) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے ” او ادفعوا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جماعت کو زیادہ کرو۔ (12) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو عون انصاری (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” او ادفعوا “ سے مراد ہے کہ سرحدوں کی نگہداشت کرو۔ منافقین غزوہ احد سے واپس آگئے (13) ابن اسحاق وابن جریر ابن المنذر ابن شہاب اور اس کے علاوہ دوسرے حضرات رحمۃ اللہ علیہم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب میں ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ احد کی طرف تشریف لے گئے احد اور مدینہ منورہ کے درمیان شرط کے مقام پر تھے تو عبد اللہ بن ابی ایک تہائی لوگوں کو لے کر الگ ہوگیا اور کہا آپ نے ان کی اطاعت کی اور آپ ﷺ نے میری بات نہیں مانی اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ ہم یہاں اپنے آپ کو کیوں قتل کریں گے اور لوٹ گئے اس کے ساتھ نفاق والے اور شک والے لوگ بھی لوٹ گئے عبد اللہ بن عمرو بن حزام (رح) جو بنو سلمہ میں سے تھے ان کے پیچھے گئے اور ان سے فرمایا اے قوم ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتا ہوں کہ تم اپنے نبی کو اور اپنی قوم کو چھوڑ کر جا رہے ہو اس وقت میں جبکہ ان کے دشمن حاضر ہیں کہنے لگے اگر ہم اس بات کو جان لیتے کہ تم (دشمن کے ساتھ) قتال کرو گے تو ہم تمہارا ضرور کہنا مان لیتے لیکن ہم نہیں دیکھ رہے ہیں کہ قتال یعنی لڑائی ہوگی۔ (14) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لو نعلم قتالا لا اتبعنکم “ یہ عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل کیا ہوئی۔ (16) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ ہزار آدمیوں کے ساتھ (مقابلہ کے لیے) نکلے اور ان سے وعدہ فرمایا اگر وہ صبر کریں گے تو ان کو فتح نصیب ہوگی جب یہ لوگ (احد کی طرف) نکلے تو عبد اللہ بن ابی تین سو آدمیوں کے ساتھ واپس آگیا ابو جابر سلمی (رح) ان کے پیچھے گئے اور ان کو بلانے کے لیے انہوں نے ابو جابر کی بات نہ مانی تو اس سے کہا ہم نہیں خیال کرتے کہ جنگ ہوگی اگر تم بھی ہماری اطاعت کرو تو ہمارے ساتھ ضرور لوٹ آؤ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا اگر تم ہماری اطاعت کرتے تو لوٹ آتے (اسی کو فرمایا) لفظ آیت ” الذین قالوا لاخوانہم وقعدوا لو اطاعونا ما قتلوا “۔ (17) ابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت ” الذین قالوا لاخوانہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت اللہ کے دشمن عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (18) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” الذین قالوا لاخوانہم وقعدوا “ اللہ کے دشمن عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (19) ابن جریر نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” الذین قالوا لاخوانہم “ سے عبد اللہ بن ابی مراد ہے۔ (20) سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھ مراد ہیں۔ (21) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ عبد اللہ بن ابی اور وہ لوگ جو بیٹھ گئے انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا جو نبی ﷺ کے ساتھ احد کے دن (میدان جنگ کی طرف) نکلے۔ (22) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل فادرء وا عن انفسکم الموت “ سے مراد ہے یعنی موت تم کو ضرور پہنچے گی اور اگر تم طاقت رکھتے ہو تو اپنے آپ سے موت کو دور کر دو تو ایسا کرلو اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے منافقت کی اور اللہ کے راستہ میں جہاد کو چھوڑ دیا دنیا میں باقی رہنے کی حرص اور موت سے بھاگنا تھا۔ (23) ابن ابی حاتم نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت قدریہ کے بارے میں نازل ہوئی لفظ آیت ” الذین قالوا لاخوانہم وقعدوا لو اطاعونا ما قتلوا “۔ (24) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ کفار جو اپنے بھائیوں کو یہ کہتے تھے اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ قتل کئے جاتے وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا لڑائی میں حاضر ہونا ان کو موت کی طرف آگے کردیتا ہے۔
Top