Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 165
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَا١ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا١ؕ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَوَلَمَّآ : کیا جب اَصَابَتْكُمْ : تمہیں پہنچی مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَدْ اَصَبْتُمْ : البتہ تم نے پہنچائی مِّثْلَيْھَا : اس سے دو چند قُلْتُمْ : تم کہتے ہو اَنّٰى هٰذَا : کہاں سے یہ ؟ قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (اپنے پاس) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : شے قَدِيْرٌ : قادر
کیا جب تم پر ایک مصیبت آپڑی۔ حالانکہ اس سے دوگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں ان کو پہنچ چکی ہے تو تم کہتے ہو کہ یہ کہاں سے آئی۔ اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ یہ مصیبت خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 165 تا 177 اصبتم (تم نے پہنچادیا) مثلیھا (اس سے دوگنا) ادفعوا (دور کرو) اقرب (زیادہ قریب) قعدوا (بیٹھے رہے) لواطاعونا (اگر ہماری بات مانتے) ادرء وا (تم دور کرو) یرزقون (رزق دیئے جاتے ہیں) فرحین (خوش ہوتے ہیں) یستبشرون (بشارت وخوش خبری دیتے ہیں) لم یلحقوا (نہیں ملے) حسبنا اللہ (ہمیں اللہ کافی ہے) یسارعون ( دوڑتے ہیں) حظ (حصہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 165 تا 177 غزوۂ احد میں بعض مسلمانوں کی اجتماعی غلطی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو تکلیف اٹھا نا پڑی اس پر اہل ایمان نے تو صبر اور برداشت سے کام لیا لیکن مناقفین کو بہت سی باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ کہنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس غزوے میں فتح و کامیابی ہوگی پھر یہ مصیبت کہاں سے اگئی اور ہماری فتح، شکست میں کیسے بدل گئی ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا تھا جب تم کفار کو شکست دے کر ان کی گردنیں اڑا رہے تھے مگر تم ہی میں سے بعض لوگوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بیشک وہ منافق نہیں تھے لیکن ان کی غلطی کی وجہ سے یہ سارا واقعہ پیش آیا۔ اللہ نے فرمایا اس سارے واقعہ سے بہرحال مومن اور منافق کا فرق بھی واضح ہوکر سامنے آگیا کیونکہ اس جبگ میں منافق اور مومن کی اچھی پہچان ہوگئی۔ منافق وہ ہیں جو اپنی جگہ بیٹھے رہے اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ان کو طعنے دے کر کہتے ہیں کہ ہمارا کہا مانتے تو اس طرح نہ مارے جاتے۔ اللہ نے فرمایا کہ موت تو بہرحال ایک دن آکر رہے گی کیا تم موت سے کسی طرح بچ سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کو مردہ کہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ وہ تو زندہ ہیں ان کو حیات جاودانی مل چکی ہے ان کو وہاں عزت کا مقام بھی نصیب ہے اور ان کو وہ رزق دیا جاتا ہے جس سے وہ خوش ہوتے ہیں ان کو جو راحتیں عطا کی جاتی ہیں تو وہ تمنا کرتے ہیں کاش ان کے عزیز اور رشتہ دار بھی ان کی طرح اللہ کی راہ میں شہید ہوکر عزت کا یہ مقام اور آسائش زندگی کی لذتیں حاصل کرلیتے۔ فرمایا کہ منافقین اس موقع پر طرح طرح کی افواہیں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کفار نے بہت سا اسلحہ جمع کرلیا ہے وہ عنقریب مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے لہٰذا آئندہ کے خطرات سے خوف کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح کی افواہوں سے مومن پریشان نہیں ہوتے بلکہ ان کا ایمانی جذبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ فرمایا کہ اے مومنو تم نہ ان کی باتوں میں آؤ اور نہ ان سے خوف کھاؤ کیونکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے پھر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا۔ یقیناً کامیابی اہل ایمان ہی کا مقدر بن کررہے گی۔ شرط یہ ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیا جائے۔
Top