Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 3
وَّ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَّتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھیں آپ عَلَي اللّٰهِ ۭ : اللہ پر وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور خدا پر بھروسہ رکھنا اور خدا ہی کارساز کافی ہے
(33:3) توکل۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ (اس کا تعدیہ بذریعہ علی ہوتا ہے) توکل (تفعل) مصدر تو بھروسا کر۔ تو اعتماد کر۔ تو توکل کر۔ کفی باللہ وکیلا : کفی یکفی (ضرب) کفایۃ کافی ہونا۔ کاف (صفت) کافی ۔ کفیتہ شرعدوہ۔ میں نے اس کو اس کے دشمن کے شر سے بچا دیا۔ کفی کے فاعل پر حرف باء زائد بھی آتا ہے جیسے آیت ہذا میں کفی باللہ وکیلا یعنی اللہ کی وکالت دوسرے کسی کی وکالت سے بےنیاز کردیتی ہے۔ لفظ اللہ حالت رفعی میں ہے اور وکیلا تمیز ہے۔ (وکالت : کوئی کام کسی کو سونپنا یا اس کے سپرد کرنا) ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں (یہ ایک حقیقت ہے جو اکثر و بیشتر ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے۔ اگر شاذو نادر کسی کے دو دل فی الواقع اس کے سینے میں پائے جائیں تو علم الایدان میں اس کی کئی وجاہت ملیں گی اور ایسے انسان کے زندہ رہنے کی کوئی مثال آپ کو نہ ملے گی۔ رحم مادر میں جنیب کی ابتدائی نشو و نما کے دوران کسی امر کی کمی بیشی اس کا سبب بن سکتی ہے جو بذات خود اس خالق حقیقی کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے) اس مثال کے بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی کے دو دل نہیں ہوسکتے اسی طرح اس کی دو مائیں بھی نہیں ہوسکتیں۔ (اس کی ماں وہی ہے جس نے اسے جنم دیا) اور نہ ہی ایک اولاد کے (بیٹا ہو یا بیٹی) دو باپ ہوسکتے ہیں (بیٹے یا بیٹی کا باپ وہی ہے جس کے نطفہ سے وہ پیدا ہو بالفاظ دیگر آدمی اسی اولاد کا باپ کہلا سکتا ہے جو اس کے اپنے نطفے کی پیداوار ہو) ۔ زبانی کہنے سے اپنی حقیقی ماں کے بغیر نہ کوئی ماں ہوسکتی ہے اور اپنے نطفے کی اولاد کے علاوہ نہ کوئی اولاد ہوسکتی ہے۔ جوف۔ اندرونی حصہ جو خالی یا کھوکھلا ہو جوف کہلاتا ہے انسان کے پیٹ کو جوف کہتے ہیں لیکن چونکہ دل پیٹ میں نہیں سینہ میں ہوتا ہے اس لئے ترجمہ میں اسے سینہ ہی کہیں گے ؟ الی۔ یہ التی کی جمع ہے اسم موصول جمع ہے اسم موصول جمع مؤنث (وہ سب عورتیں) جو ۔ جنہوں۔ تظھرون منھن۔ الظھر کے معنی پیٹھ۔ پشت کے ہیں۔ اس کی جمع ظھور ہے ۔ انقض ظھرک (94:3) جس نے تمہاری پیٹھ توڑ رکھی تھی۔ ظھر ظاہر ہونا۔ مثلاً ما ظھر منھا وما بطن (6:15) ظاہر ہوں یا پوشیدہ۔ ظھر پھیلنا۔ مثلاً ظھر الفساد فی البر والبحر (30:14) خشکی اور تری میں (لوگوں کے اعمال کے سبب) فساد پھیل گیا ۔ وغیرہ۔ تظھرون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ مظاھرۃ (مفاعلۃ) وظھار مصدر سے تم ظہار کرتے ہو۔ الظھار کے معنی خاوند کا بیوی سے یہ کہنا : انت علی کظھر امی (تو میرے لئے اس طرح ہے جس طرح میری ماں کی پشت) چناچہ کہا جاتا ہے ظھر من امراتہ اس نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا۔ فقرہ ظہار بول کر عرب میں مرد اپنی بیوی کو ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر حرام کرلیا کرتا تھا۔ منھن میں ھن ضمیر جمع مؤنث غائب ازواجکم کی طرف راجع ہے۔ ادعیاء کم، ادعیائ، دعی (بروزن فعیل بمعنی مفعول) کی جمع ہے مضاف کم ضمیر جمع مذکر مجاف الیہ۔ تمہارے منہ بولے بیٹے۔ تمہارے لے پالک۔ ادعیائ۔ بوجہ جعل کے مفعول ہونے کے منصوب ہے۔ یہ جعل کا مفعول اول ہے اور ابناء مفعول ثانی۔ وما جعل ادعیاء کم ابناء کم کی جمع ہے فم اصل میں فوہ تھا ہ کو اگر واؤ کو م سے بدل دیا گیا۔ ذلکم قولکم بافواہکم یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے۔ ھو یھدی السبیل : ای اللہ یرشد الی سبیل الحق۔ اللہ راہ حق پر چلنے کی ہدایت دیتا ہے۔ سیدھے راستہ پر چلاتا ہے !
Top