Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 11
فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ
فَوَقٰىهُمُ : پس انہیں بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے شَرَّ : بُرائی ذٰلِكَ الْيَوْمِ : اس دن وَلَقّٰىهُمْ : اور انہیں عطا کی نَضْرَةً : تازگی وَّسُرُوْرًا : اور خوش دلی
سو (ان کی اس فرمانبرداری و اخلاص مندی کے طفیل) اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ہوگا ان کو اس دن کے شر سے اور ان کو نواز دیا ہوگا (اپنے کرم سے) ایک عظیم الشان تازگی اور سرور (شادمانی) سے
16 اہل ایمان کے صلہ و بدلہ کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان خصال و اعمال کے صلے اور بدلے میں اہل ایمان کو اس روز ایک عظیم الشان تروتازگی اور سرور و مسرت سے سرفرازی نصیب ہوگی۔ اور یہ سب کچھ اگرچہ ان کو آخرت کے اس جہاں میں ہوگا جو اس دنیا کے بعد آأے گا اور خدا ہی جانے وہ کب کتنے زمانے کے بعد آئے گا، مگر اس کو تعبیر فرمایا گیا ہے، ماضی کے صیغوں کے ساتھ، اس کے تحقق وقوع اور نہایت یقینی ہونے کی بناء پر، جو کہ بلاغت کا ایک معروف اسلوب ہے، یعنی آخرت کے اس جہاں میں وقوع پذیر ہونے والا یہ سب کچھ اور وہاں کی ان نعمتوں کا ملنا اس قدر قطعی اور اتنا یقینی ہے کہ گویا کہ یہ سب کچھ ہوچکا ہے، نیز اس تازگی و سرور کا پورا تحقق تو اگرچہ آخرت میں ہی ہوگا مگر اللہ پاک اپنے کرم بےپایاں اور رحمت بےنہایت سے اپنے مومن بندوں کو جنت کی اس عظیم الشان نعمت کا کچھ حصہ و اثر اس دنیا میں بھی کس نہ کسی درجے میں عنایت فرما دیتا ہے، جس سے ان کے دلوں میں سرور و اطمینان ہوتا ہے، اور ان کے چہروں مہروں پر ایک خاص رونق و نورانیت، اللہ نصیب فرمائے آمین، بہرکیف یہ حضرات چونکہ اپنے صدق ایمان و یقین کی بناء پر اپنی دنیاوی زندگی میں اس کی وقتی اور عارضی لذتوں میں مست و مگن ہونے کی بجائے اس یوم عبوس و قمطریر سے ڈرتے رہے، اور اس کی آفتوں اور ہولناکیوں سے بچنے اور محفوظ رہنے کی خاطر اپنا محبوب مال اپنے خالق ومالک کی رضاء و خوشنودی کیلئے خرچ کرتے رہے، اس لیے ان کا رب غفور و شکور ان کو اپنے فضل و کرم سے اس یوم عظیم و شدید کی تلخیوں اور سختیوں سے محفوظ رکھے گا، اور اس روز جبکہ دوسرے لوگوں کے چہرے اترے اور بگڑے ہوئے ہوں گے، ان خوش نصیبوں کے چہرے ہشاش بشاش اور تروتازہ ہوں گے، اللہ نضیب فرمائے آمین ثم آمین۔ یارب العالمین۔
Top