بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کٓھٰیٰعٓصٓ
سورة مریم : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف سورة مریم بھی مکی سورتوں میں سے ہے اور سورة کہف کی طرح اس میں بھی بہت سے واقعات عجیبہ کا تذکرہ ہے ، پہلی گزرنے والی سورة یعنی سورة کہف کی طرح اس میں بھی بہت سے واقعات کا ذکر تھا جو علمائے یہود نے مشرکین مکہ کو پوچھنے کے لیے کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان واقعات کو صحیح طور پر صرف اللہ جل جلالہ کا نبی ہی بیان کرسکتا ہے اللہ کریم نے وہ واقعات ارشاد فرما کر اپنے رسول فداہ ابی وامی کو مزید واقعات غریبہ سے مطلع فرمایا جن کے بارے کفار ومشرکین سوال بھی نہ کر پائے تھے کہ وہ اتنا بھی علم نہ رکھتے تھے ۔ (حروف مقطعات) کھیعص : حروف مقطعات کی بات پہلے گزر چکی کہ انہیں پڑھنے کا ثواب بھی قاری پالیتا ہے اور کیفیت بھی ، رہا ان کا مفہوم تو یہ اللہ کریم اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان راز ہے یا اس کے خاص بندوں کو باتباع نبی جتنا اللہ کریم چاہے نصیب ہوتا ہے ۔ (اللہ کریم کے انداز عطا کا تذکرہ) یہاں رب جلیل کی عطائے کریمانہ کا تذکرہ ہے کہ وہ اسباب کا محتاج نہیں جب چاہے جو چاہے اور جس کو چاہے عطا کر دے ہاں مانگنے کی شرائط بھی ہیں اور سلیقہ بھی پھر اس کی رحمت کا تماشہ دیکھو ۔ (مانگنے کی شرط اور سلیقہ) مانگنے کی شرط تو یہ ہے کہ بندہ اس کا ہو ، جیسا کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) تو کامل بندے ہوتے ہیں ، مذاہب باطلہ نے اپنے اپنے مذہبی راہنماؤں کو کبھی دیوتا ماننا اور کبھی اللہ جل جلالہ کا اوتار ، کسی میں حلول کے قائل ہوگئے اور کسی میں خدائی اوصاف کو مان لیا ، مگر اسلام اور دین حق کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اللہ جل جلالہ کا نبی یا اللہ کی طرف دعوت دینے والا اللہ جل جلالہ کا رسول اس کا کامل بندہ ہوتا ہے لہذا ہر مانگنے والے لیے بنیادی شرط تو یہ ہے کہ اللہ کریم کو مالک اور خود کو اس کا بندہ جانے ، اب رہا سلیقہ تو وہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے انداز سے عیاں ہے کہ پہلے تو نہایت خفیہ انداز میں یعنی قلبی طور پر چپکے چپکے رب جلیل سے مانگے یعنی بات اس کے اور اس کے ربن کے درمیان ہو محض دکھلاوے کے لیے شور برپا نہ کرے ۔ (ذکر خفی) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد حضرت سعد ابن وقاص ؓ نے روایت فرمایا ” ان خیرالذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی “۔ کہ بہترین ذکر ” خفی “ ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کافی ہو اور ضرورت پوری کرنے والا ہو ، دوسرا انداز یہ ہے کہ اپنی احتیاج اور کمزوری کو بیان کرے اور اپنی حاجت مندی کا ذکر کرے ، اور تیسری بات یہ کہ اللہ کریم کی بخشش اور عطا پر اعتماد ہو ، جیسے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے چپکے چپکے دعا کی کہ اے رب کریم میری تو ہڈیاں بھی بوڑھی ہوگئیں ، اور یہ بڑھاپے کی زیادتی کا بیان کہ اس کا اثر نہ صرف اعصاب پر ہے بلکہ ہڈیاں تک کمزور پڑگئی ہیں اور سر سے بڑھاپے کا شعلہ نکل گیا ہے یعنی میرے سر کا حال بالوں کی سفیدی یا سماعت و بصارت کی فطری کمزوری یا لرزہ وغیرہ بڑھاپے کا اعلان ایسے کر رہے ہیں جیسے شعلہ اٹھ کر آگ کے ہونے کی خبر دیتا ہے سبحان اللہ کیا خوبصورت انداز بیان ہے اور تیری عطائے کریمانہ یہ ہے کہ میں کبھی بھی تجھ سے مانگ کر محروم نہیں رہا ، نیز ساتھ میں مانگنے کا بنیادی سبب دین کو قرار دیا اگرچہ ساتھ دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوا کہ اولاد کی نعمت عطا ہوئی مگر عرض کیا کہ میں اپنے رشتہ داروں کے رویہ سے ڈرتا ہوں کہ یہ دینی خدمت انجام نہ دے سکیں گے بلکہ الٹا دین میں رکاوٹ کا باعث بن جائیں گے ۔ (اہل اللہ اور ان کے رشتہ دار) یہ بڑی عجیب بات ہے کہ بہت خوش قسمت رشتہ دار انبیاء کرام ﷺ سے مستفید ہوئے ورنہ اکثر محرومی کا شکار ہوئے اسی طرح اہل اللہ کے بھی رشتہ داروں نے بہت کم فائدہ پایا اور اکثر نے دینی امور میں مخالفت کی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ استفادہ کرنے کے لیے عقیدت ، ادب اور اطاعت بنیادی باتیں ہیں مگر رشتہ دار عموما عقیدت ہی سے محروم ہوتے ہیں اور نبی کو نبی ماننے کی بجائے بھائی بھتیجہ یا قوم کا آدمی ہی جانتے ہیں ایسے ہی اہل اللہ کے رشتہ دار انہیں محض اپنے رشتے سے پہچاننے پہ اکتفا کرتے ہیں جو ان کے لیے برکات سے محرومی کا سبب بن جاتا ہے لہذا انہوں نے بھی یہاں یہ بات عرض کی کہ رشتہ داروں سے خائف ہوں اور ان سب باتوں میں بہت بڑی بات یہ بھی ہے کہ میری بیوی بانجھ ہے جسے ساری عمر اولاد نصیب نہیں ہو سکتی ۔ لیکن اے میرے پروردگار تو قادر مطلق ہے لہذا مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا ایسا وارث ہو کہ آل یعقوب (علیہ السلام) کی وارثت کا حق ادا کرسکے اور وہ تیرا مقبول ومحبوب بندہ بھی ہو ۔ (انبیاء (علیہ السلام) کی وراثت) جمہور کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء کرام ﷺ کی وراثت ان کے علوم ہوتے ہیں اور دنیا کا مال انبیاء کرام ﷺ کی وراثت نہیں ہوتا ، ایک حدیث صحاح میں بھی ہے اور کتب شیعہ میں سے بھی کافی کلینی “ میں موجود ہے کہ بیشک علماء ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) دینار ودرحم کی وارثت نہیں چھوڑتے بلکہ ان کی وارثت علم ہوتا ہے جس نے حاصل کرلیا بڑی دولت پالی ، اور مال انبیاء کرام (علیہ السلام) جو رہ جائے ، وہ صدقہ ہوتا ہے ، نبی اکرم ﷺ کے ہتھیار زریں اور گھوڑے وغیرہ وارثوں کو نہیں بلکہ محض برکت کے لیے ان حضرات کو عطا ہوئے ، یہاں بھی دنیا کی وراثت مراد نہیں بلکہ فرمایا (آیت) ” یرثنی ویرث ال یعقوب “۔ کہ میرا وارث بنے اور آل یعقوب (علیہ السلام) کا جس سے واضح ہے کہ علمی وراثت ہے اور دنیا کے مال کا وارث تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قریبی لوگوں نے بننا تھا نہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اولاد نے نیز اپنے اقربا سے ڈرتے ہیں کہ وراثت کے اہل نہ ہوں گے تو مراد علم اور دین ہے ورنہ دنیا کی دولت تو پھر وارث لے لیتا ہے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کے پاس دولت بھی تو نہ تھی ۔ ارشاد ہوا آپ کی دعا قبول فرما کر بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے آپ اس کا نام بھی یحیٰ (علیہ السلام) رکھیں جو ایک منفرد نام ہے کہ پہلے یہ نام کسی کو نصیب نہیں ہوا ، گویا نام کا خوبصورت اور منفرد ہونا بہت اچھی بات ہے ۔ (نام خوبصورت اور منفرہونا چاہئے) اور نام بامعنی بھی ہونا چاہئے جس کا اہتمام اسلام میں بہت ہے ورنہ غیر اسلامی دنیا کے آج کے نام بھی امریکہ کا صدر بش ہے یعنی جھاڑی اور نائب صدر کوئل یعنی بیٹر ، ان کا اثر شخصیت پہ ہونا ایک قدرتی امر ہے ۔ تو آپ نے عرض کیا بارے الہا میرا بڑھاپا بھی حد سے گزر گیا ہے اور میری بیوی بھی بانجھ ہے تو وہ کیا طریقہ ہوگا کہ ہمیں بیٹا نصیب ہوگا بظاہر اس بات سے آگاہ ہونے کی کوئی نشانی تو ہم میں ہے نہیں تو کیا میں جوان ہوں گا یا اور شادی ہوگی یا کیسے یہ کام ہوگا فرمایا مجھے اسباب کی ضرورت نہیں اور میری قدرت کاملہ ہر انسان کے روبرو ہے کہ کوئی کچھ نہیں ہوتا تو ہم بنا دیتے ہیں ایسے ہی اسباب کو ہم بناتے ہیں تو عرض کیا اللہ کریم کوئی نشانی ہی مقرر فرما دے کہ جان سکوں فرمایا علامت یہ ہے کہ جب آپ کی بیوی حاملہ ہوگی تو تین روز تک آپ کسی سے بات نہ کرسکیں گے ذکر الہی پر تکلم کی طاقت ہوگی کسی انسان سے بات نہ ہو سکے گی چناچہ جب آپ کی یہ حالت ہوگئی تو حجرہ مبارک سے باہر آئے اور قوم کو کثرت سے ذکر کرنیکا حکم دیا اور اشارے سے سمجھایا ۔ (اولاد یا نعمت کی عطا پر اظہار خوشی کا طریقہ) یہ قدرتی امر ہے کہ نعمت پا کر خوشی ہوتی ہے اور اولاد بہت بڑی نعمت ہے تو اظہار مسرت کا طریقہ یہ ہے کہ کثرت سے اللہ جل جلالہ کا ذکر کیا جائے محافل منعقد کی جائیں سیرت بیان کی جائے احکامات بیان کیے جائیں اور ذکر اللہ کا اہتمام کیا جائے ۔ چناچہ انہیں فرزند عطا ہوا حضرت یحیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے جب انہوں نے ہوش سنبھالا تو ارشاد ہوا کہ اے یحیٰ (علیہ السلام) کتاب یعنی تورات کو مضبوطی سے تھا میں یعنی اس پر عمل کو پوری کوشش کریں اور انہیں لڑکپن میں ہی دین کا فہم و شعور عطا ہوا اور اللہ جل جلالہ نے اپنی محبت عطا کردی اور ان کے قلب میں اپنی طلب ڈال دی اور بہت صاف ستھرے نہایت پرہیزگار تھے اور والدین کے ساتھ بہت سلوک کرنے والے عام آدمیوں پر بھی شفقت لٹانے والے تھے کبھی بھی سخت گیر اور خود سر نہ تھے اور اللہ کے اتنے محبوب تھے کہ فرمایا میری طرف سے سلامتی ہو ان پر جس روز وہ پیدا ہوئے جس روز دنیا سے رخصت ہوں گے اور جب میدان حشر میں دوبارہ زندہ ہو کر اٹھیں گے تب بھی ۔
Top