بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
1:۔ فریابی، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبدابن حمید ابن، جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے کبیہ ھاد، امین، عزیز اور صادق اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ کاف کبیر کے بدلہ میں ہے۔ 2:۔ عبدالرزاق آدم ابن ابی ایاس عثمان بن سعید دارمی نے توحید میں ابن جریر ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کھیعص “ میں کاف کریم میں سے ہے ھاھاد میں سے ہے یاء حکیم میں سے ہے عین علیم میں سے ہے اور صاد صادق میں سے ہے۔ 3:۔ ابن ابی حاتم نے ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کھیعص “ حروف ہجا ہیں جو مختلف اسماء سے علیحدہ کئے گئے ہیں کاف ملک سے ہے، ھا اللہ سے ہے یاء اور عین عزیز سے ہے صاد مصور سے ہے۔ 4:۔ ابن مردویہ نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ ان سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابو صالح اور انہوں نے ام ھانی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کاف، ھاد، عالم، اور صادق۔ 5:۔ عثمان بن سعید دارمی ابن ماجہ اور ابن جریر نے فاطمہ بنت علی ؓ سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ فرماتے تھے کہ (آیت) ” کھیعص “ اور ” حم “ اور ” یسین “ اور ان جیسے دوسرے حروف اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہیں۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ قسم ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) میں بڑا ہوں، ہدایت دینے والا ہوں، بلند مرتبہ ہوں، امین ہوں، سچا ہوں، 8:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں روایت کیا کہ کاف ملک سے، ھا اللہ سے ہے عین عزیز سے ہے اور صاد صمد سے ہے۔ 9:۔ عبد بن حمید ربیع بن انس (رح) سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں روایت کیا کہ کاف چابی ہے اس کے نام کافی کی اور ھا چابی ہے اس کے نام ھادی کی اور عین چابی ہے اس کے نام عالم کی اور صاد چابی ہے اس کے نام صادق کی۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں فرمایا کہ اے وہ ذات جو پناہ دیتی ہے اور جس کے خلاف پناہ نہیں دی جاتی۔ 11:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے (آیت) ” کھیعص “ کے بارے میں روایت کیا کہ قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے (واللہ اعلم) حجرے میں بےموسم پھل ملنا : 12:۔ ابن ابی حاتم نے یحییٰ بن یعمر (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا “ پھر فرماتے ہیں کہ جب زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس محراب میں داخل ہوتے تو اس کے پاس سردی کے پھل گرمی کے موسم میں پاتے تھے اور گرمی کے پھل سردی کے موسم میں پاتے تھے پھر فرمایا (آیت) ” ذکر رحمت ربک “۔ 13:۔ احمد، ابویعلی، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زکریا (علیہ السلام) نجار (لکڑی کا کام کرنے والے) تھے۔ 14:۔ اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر سے روایت کیا کہ زکریا بن دان ابویحیٰ ان انبیاء کے بیٹوں میں سے تھے جو لوگ بیت المقدس میں وحی کو لکھتے تھے۔ 15:۔ ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے (آیت) ” اذ نادی ربہ ندآء خفیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اپنے دل میں چپکے سے (دعا مانگی) قتادہ ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ آواز اور صاف دل کو پسند فرماتے ہیں۔ 16:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” اذ نادی ربہ ندآء خفیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ آپ نے آہستہ سے دعا کی کہ آپ ریا کاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 17:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے آخری نبی زکریا بن ادریس یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے انہوں نے اپنے رب کو چپکے سے پکارا اور کہا (آیت) ” رب انی وھن العظم منی “ سے ” خفت الموالی من ورآءی “ تک اور وہ ایک جماعت تھی (آیت) ” یرثنی ویرث میں ال یعقوب “ کا (آیت) ” فنادتہ الملئکۃ “ اور وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے (آیت) ” ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ، اسمہ “ جب آواز سنی تو ان کے پاس شیطان آیا اور کہا اے زکریا جو آوازتو نے سنی وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے وہ شیطان کی طرف سے جو تیرے ساتھ تمسخر کررہا ہے تو انہوں نے (یہ سن کر) شک کیا اور فرمایا (آیت) ” انی یکون لی غلم “ یعنی وہ کیسے ہوگا (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ (یعنی میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا (9) “ (میں نے تجھ کو اس سے پہلے پیدا کیا اور تم کچھ بھی نہ تھے ) ۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھن العظم منی “ یعنی (ہڈیاں) ضعیف ہوگئیں۔ 19:۔ عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وھن العظم منی “ یعنی ہڈیاں ٹیڑھی ہوگئیں۔ 20:۔ عبدالرزاق، عبدابن حمید اور ابن ابی حمید اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” ولم اکن بدعآئک رب شقیا “ کے بارے میں فرمایا کہ ہمیشہ آپ نے میری دعاوں کو شرف قبولیت بخشا۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عیینہ (رح) سے (آیت) ” ولم اکن بدعآئک رب شقیا “ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے (ہمیشہ) تجھ سے دعا کرنے کی سعادت حاصل کی اگرچہ آپ نے مجھے عطا نہ بھی کیا۔ 22:۔ ابوعبید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن عاص (رح) سے روایت کیا کہ عثمان عفان ؓ نے خود (آیت) ” وانی خفت الموالی “ لکھوایا یعنی خاء اور فاء کے نصب کے ساتھ اور تاء کے کسرہ کے ساتھ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ دار کم ہوگئے۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآءی “ سے مراد ورثاء ہیں جو میت کے عصبہ ہوتے ہیں۔ زکریا (علیہ السلام) کی دعاء : 24:۔ ابن ابی شیبہ، عبدابن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) نے (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآءی “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آل یعقوب میں سے عصبہ ہیں اور آپ کے پیچھے نوجوان اور زکریا یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور ایک روایت میں ایوب ہے۔ 25:۔ فریابی، ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زکریا (علیہ السلام) کی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا اور فرمایا (آیت) ” رب ھب لی من لدنک ولیا (5) یرثنی ویرث من ال یعقوب “ یعنی وہ میرے مال کا وارث بنے اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث بنے۔ 26:۔ عبدالرزاق، عبد ابن حمید، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) نے (آیت) ” یرثنی ویرث من ال یعقوب “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کی نبوت اور ان کے علم کا وارث بنے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ میرے بھائی زکریا پر رحم فرمائے ان کا کوئی وارث نہ تھا اور اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے اگرچہ انہوں نے ایک مضبوط قلعے (یعنی اپنے زور دار قبیلہ) کی طرف پناہ لینے کا اظہار کیا۔ 27:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یرثنی ویرث من ال یعقوب “ یعنی وہ وارث ہوگا میری نبوت کا اور آل یعقوب کی نبوت کا۔ 28:۔ ابن ابی حاتم نے صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویرث من ال یعقوب “ یعنی وہ نبوت کا وارث ہوگا۔ 29:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویرث من ال یعقوب “ یعنی آل یعقوب سے سنت اور علم کا وارث ہوگا۔ 30:۔ سعید بن منصور اور عبد ابن حمید نے یحییٰ بن یعمر (رح) سے روایت کیا کہ وہ (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآء ی “ کو تشدید اور خاء کے نصب اور تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے تھے اور اس کو اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” یرثنی ویرث من ال یعقوب “۔ 31:۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے (آیت) ” یرثنی ویرث من ال یعقوب “۔ 32:۔ عبدبن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت) ” یرثنی “ مثقل اور مرفوع۔ 33:۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! مجھے ایک بیٹا عطا فرمائیے ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا تو بڑا ہو کر اس نے داود (علیہ السلام) پر خروج کیا داود (علیہ السلام) نے اس کی طرف ایک لشکر بھیجا اور کہا اگر تم اس کو صحیح سالم پکڑ لو تو ایک آدمی میری طرف بھیج دینا میں اس کے چہرے میں خوشی کو پہچان لوں گا اور اگر تم اس کو قتل کردو تو میری طرف ایک آدمی کو بھیج دینا میں اس کے چہرے میں شرکو پہچان لوں گا لشکر والوں نے اس کو قتل کردیا اور ان کی طرف ایک کالے آدمی کو بھیجا جب انہوں نے اس کو دیکھا تو جان لیا کہ وہ قتل کردیا گیا ہے داود (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب ! میں نے آپ سے بیٹے کا سوال کیا تھا اس نے مجھ پر خروج کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو نے کوئی تعریف نہیں کی تھی محمد بن کعب (رح) نے فرمایا انہوں نے ایسا نہیں کیا جیسا زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” واجعلہ رب رضیا “۔ یحیی (علیہ السلام) کی بشارت ملنا : 34:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ ان کو ایک بیٹا عطا کیا جائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نیچے اترے اور ان کو یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی تو اس وقت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” انی یکون لی غلم “ میرا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک خشک لکڑی لی اور اس کو زکریا (علیہ السلام) کی ہتھیلیوں کے درمیان رکھ دیا پھر فرمایا اس کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان داخل کرو انہوں نے ایسا ہی کیا اور اچانک ان کے سر میں ایک لکڑی تھی جو دو پتوں کے درمیان تھی جن سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا وہ ذات جس نے اس خشک لکڑی سے اس پتے کو نکالا اس بات پر قادر ہے کہ آپ کے صلب اور آپ کی بانجھ بیوی سے بچہ پیدا کردے۔ 35:۔ فریابی، ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ یعنی اس سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں تھا 36:۔ عبدالرزاق، احمد نے زہد میں اور عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ یعنی اس سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں تھا احمد نے الزہد میں عکرمہ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 37:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ یعنی بانجھ عورتوں میں سے کسی نے اس طرح کا بچہ جنم نہیں دیا۔ 38:۔ احمد نے زہد میں عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ یعنی میں سمیا سے مراد ہے مثلا : (یعنی اس طرح کا نام ہم نے پہلے نہیں رکھا ) ۔ 39:۔ احمد نے زہد میں عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ (اس نام کے) مشابہ۔ عبد بن حمید نے عطا سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 40:۔ بخاری نے تاریخ میں یحییٰ بن خلاد رومی (رح) نے فرمایا کہ ان کی پیدائش ہوئی تو ان کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے ایک چیز چبا کر اس کے تالو میں لگائی اور فرمایا میں اس کا نام رکھ دیتا ہوں ایسا نام کہ یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے بعد کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا پھر آپ نے اس کا نام یحییٰ رکھ دیا۔ 41:۔ سعید بن منصور، احمد، عبدابن حمید، ابوداود، ابن جریر، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ اس حرف کو کیسے پڑھتے تھے عتیا یا عییا۔ 42:۔ ابن انباری نے وقف وابتداء میں اور الحاکم نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے سوال کیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ کے بارے میں بتائیے کہ ” العتی “ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا بڑھاپے کی وجہ سے کمزوری، شاعر نے کہا : انما یعذرالولید ولا یعذر من کان فی الزمان عتیا :۔ ترجمہ : بیشک ولید نے عذر پیش کیا حالانکہ زمانہ میں کسی نے بڑھاپے کی کمزوری کا عذر پیش نہیں کیا۔ 43:۔ عبدبن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ یعنی ہڈیاں کمزور ہوگئیں۔ 44:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ یعنی میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں۔ 45:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ میں ” العتی “ جو بچہ پیدا کرنے سے عاجز ہوتا ہجے وہ دل میں سوچتا ہے کہ (اب) اس (عمر) میں اولاد نہ ہوگی۔ 46:۔ عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم نے ثوری (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ زکریا (علیہ السلام) ستر سال کے تھے۔ 47:۔ ابن ابی حاتم نے ابن المبارک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ سے ساٹھ سال کی عمر مراد ہے۔ 48:۔ رامہر مزی نے اسناد میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ کہ آپ نے یہ اس وقت کہا جب آپ ساٹھ یا پینسٹھ سال کے تھے۔ 49:۔ عبد ابن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا ” عتیا “ عین کے رفع کے ساتھ۔ 50:۔ عبدابن حمید نے یحییٰ بن وثاب (رح) سے روایت کیا کہ وہ ” عتیا “ اور وصلیا “ کو عین اور صاد کے کسرے کے ساتھ پڑھتے تھے۔ 51:۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن عقیل (رح) سے روایت کیا کہ وہ (آیت) ” وقد بلغت من الکبر عتیا “ سین اور عین کے رفع کے ساتھ پڑھتے تھے۔ 52:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور حاکم نے نوف (رح) سے (آیت) ” قال رب اجعل لی ایۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یا رب مجھے کوئی نشانی عطا فرمائیے کہ (جس سے معلوم ہو) کہ آپ نے میری دعا قبول فرمالی ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا “ فرمایا کہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دی گئی حالانکہ آپ صحیح سالم تھے کوئی بیماری نہیں تھی اور تین دنوں تک بات نہ کرسکے۔ 53:۔ ابن جریر نے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے (آیت) ” الا تکلم الناس ثلث لیال سویا “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کی زبان کو بغیر کسی بیماری کے باندھ دیا گیا۔ 54:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ نے (آیت) ” ثلث لیال سویا “ کے بارے میں فرمایا کہ بغیر گونگے پن کے آپ نے تین دن مسلسل بات نہ کی۔ عبدبن حمید نے عکرمہ اور ضحاک رحمہم اللہ نے ا سی طرح روایت کیا ہے۔ 55:۔ عبدبن حمید نے مجاہد (رح) سے (آیت) ” ثلث لیال سویا “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ صحیح تھے کسی مرض نے ان کو بات کرنے سے نہ روکا تھا۔ زبان بندی کا واقعہ : 56ـ:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ان کی زبان کو روک دیا گیا کسی سے بات نہیں کرسکتے حالانکہ وہ اس حال میں تسبیح اور تورات شریف بھی پڑھتے تھے جب لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو ان سے بات نہ کرسکتے تھے۔ 57ـ:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” فخرج علی قومہ من المحراب “ کے بارے میں روایت کیا کہ محراب سے مراد ہے ان کی نماز پڑھنے کی جگہ۔ 58:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” فاوحی الیہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ ان کے لئے لکھ دیا گیا۔ 59:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاوحی الیہم “ سے مراد ہے کہ ان کے لئے لکھ دیا گیا۔ 60:۔ ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاوحی الیہم “ سے مراد ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے ان کی طرف اشارہ کیا۔ 61:۔ سعید بن منصور، عبدبن حمید اور ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاوحی الیہم ان سبحوا ‘ سے مراد ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے ان کی طرف اشارہ کیا۔ 62:۔ عبدبن حمید اور ابن منذر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاوحی الیہم “ سے مراد ہے کہ ان کی طرف اشارہ کیا۔ 63:۔ ابن ابی حاتم اور حاکم نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے (آیت) ” فاوحی الیہم ان سبحوا “ کے بارے میں روایت کیا فرمایا کہ آپ نے ان کو نماز پڑھنے کا اشارہ فرمایا۔ 64:۔ ابن ابی حاتم نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” بکرۃ وعشیا “ سے مراد ہے کہ ان کو صبح اور شام نماز کا حکم دیا گیا۔ 65:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” فاوحی الیہم ان سبحوا بکرۃ وعشیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ” البکرۃ “ سے فجر کی نماز مراد ہے اور ” عشیا “ سے عصر کی نماز مراد ہے۔
Top