بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
ترکیب : ذکر مرفوع بانہ خبر مبتدء محذوف ای ہذا ثم الخبر مضاف الیٰ رحمت وھی الٰی ربک۔ عبدہ منصوب بانہ مفعول رحمۃ وقیل مفعول لذکرا ذ نادی ظرف زمان للرحمۃ اے رحمۃ اللہ ایاہ وقت ان ناداہ۔ قال رب الخ الجملۃ مفسرۃ لقولہ نادی والوھن الضعف یقال وہن یہن وہنامن باب وعدیعد ولایتعدی فی لغۃ۔ اشتعل الراس الاشتعال انتشار شعاع النار فشبہ بہ انتشار بیاض شعرالراس بجامع البیاض ثم اخرجہ مخرج الاستعارۃ بالکنایۃ بان حذف المشبہ بہ واداۃ التشبیہ شقیا اے خائبا من الاجابۃ۔ خفت بصیغہ المتکلم وقری بکسر التاء وفاعلہ الموالی اے قلودما توالمراد بالموالی جمع المولیٰ ھنا الاقارب یرثنی و یرث بالرفع الفعلین علی انھما صفتان للولی و قریٔ بالجزم علی انھما للدعا سمیا فعیل بمعنی المفعول قال اکثر المفسرین لم تسم احدا قبلہ یحییٰ و قال ابن عباس و مجاہد و جماعۃ معنالم نجعل لہ نظیر اولا مثلا من المساماۃ اوالسموو قیل معناہ لم تلد تفسیر : اس سورة میں بھی چند بزرگوں کے تذکرے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی رحمت وقدرت کا کامل اظہار ہوتا ہے اور مقصود ان تذکروں سے یہ ہے کہ خدا پرستوں پر ہمیشہ دنیا و آخرت میں اس کی مہربانی اور عنایت ہوا کرتی ہے وہ اپنے مخلصین کی ہر موقع پر دستگیری کیا کرتا ہے اسی پر توکل چاہیے۔ پہلا تذکرہ حضرت زکریا پیغمبر (علیہ السلام) کا ہے۔ یہ حضرت شہر یروسلم کے باشندے بنی اسرائیل میں ہیکل یعنی بیت المقدس کے ایک کاہن یعنی امام تھے، منجملہ اور کاہنوں کے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ یہود کی سلطنت قائم نہ رہی تھی۔ شاہان روم ان پر حکومت کرتے تھے اور ان کا ایک نائب یا گورنر یہاں رہا کرتا تھا جن کو ہیرودیس کہا کرتے تھے۔ یہ نام ان کا خاندانی نام تھا اور ہیرودیس یہود میں سے نہیں بلکہ غیر تھا۔ بیت المقدس کئی بربادیوں کے بعد حال میں ازسرنو بطرز سابق تعمیر ہوا تھا اس میں متعدد کمرے اور کئی درجے تھے اور دو منزلہ مکانات بھی تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) بوڑھے ہوگئے تھے اور ان کی بیوی الیسبات جو حضرت مریم کی خالہ تھیں بانجھ تھیں۔ زکریا کو اولاد نہ ہونے سے بعد میں اقارب کا کھٹکا تھا کہ ان سے سرانجام ملت نہ ہو سکے گا۔
Top