Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ
: کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص۔
(کوائف اور زمانہ نزول) اس سورة میں حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر ہے ، لہذا یہ سورة آپ ہی کے نام پر سورة مریم کے نام سے موسوم ہے یہ سورة اٹھانوے آیات اور چھ رکوع پر مشتمل ہے ، اس کے 962 الفاظ اور 3302 حروف ہیں ۔ یہ سورة مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے ۔ اس امر کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ سن پانچ اور چھ نبوی میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی دو جماعتیں مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ پہنچیں تو وہاں کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنا چاہے چناچہ حضرت جعفر ؓ امیر قافلہ نے نجاشی کے سامنے نہ صرف حضور ﷺ اور مسلمانوں کے حالات بیان کیے بلکہ سورة مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت بھی کی جن میں حضرت مریم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کی ولادت اور دیگر حیران کن واقعات مذکور ہیں ۔ (ہجرت حبشہ) جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر عرصۃ حیات تنگ کردیا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف پہچانے لگے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا ، اس وقت حبشہ میں نجاشی بادشاہ حکمران تھا جو کہ انصاف پسند تھا ، لہذا آپ نے اس علاقہ کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ تصور کیا چناچہ حبشہ کی طرف یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی دو جماعتوں نے ہجرت کی ، پہلی جماعت میں بارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں دوسری جماعت 82 یا 83 افراد پر مشتمل تھی جن میں 18 عورتیں بھی شامل تھیں ۔ (مضامین سورة ) اس سورة مبارکہ میں تین مرکزی مضامین بیان ہوئے ہیں یعنی (1) توحید (2) رسالت ، اور (3) جزائے عمل ، اس کے علاوہ بہت سی ضمنی باتیں بھی آگئی ہیں جس طرح گذشتہ سورة میں اللہ کے انبیاء اور اولیاء کا ذکر تھا ، اسی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی اللہ کئی نبیوں کا حال بیان فرمایا ہے ابتداء میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہے ، اس کے حضرت یحیٰ (علیہ السلام) پھر حضرت مریم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے ، آگے ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے واقعات بھی آئیں گے ، یہ سارے نبی اپنی حاجتیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کرتے تھے اس کی وحدہ لا شریک اور متصرف فی الامور سمجھتے تھے ، وہ جانتے تھے کہ اس کے سوا نہ کوئی عالم الغیب ہے ، نہ مشکل کشا اور حاجت روا ، یہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ہمیشہ امید وار رہتے تھے ، اس کے برخلاف ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں نے انہی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کردیا ، عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ دیا اور ان کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو مادر خدا کا درجہ دے دیا (نعوذ باللہ) اور پھر انہیں متصرف فی الامور مان کر ان سے حاجتیں طلب کرنے لگے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ابتدائے سورة میں ہی ہے کہ انہوں نے اللہ سے اولاد کے لیے درخواست کی تھی پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر بھی ہے ، اس طرح اللہ نے توحید کا مسئلہ سمجھایا ہے اور انبیاء کا ذکر کے اللہ نے نبوت و رسالت کا مسئلہ بھی واضح کردیا ہے ، تیسرا مسئلہ وقوع قیامت اور جزائے عمل کا ہے وہ بھی اس سورة میں بیان ہوگیا ہے ۔ (حروف مقطعات) اس سورة کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی کھیعص ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہ اسماء اللہ میں سے اللہ کا ایک نام ہیں حضرت علی ؓ کی بعض روایات سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ جس طرح بعض سورتوں کے نام حروف مقطعات پر ہیں جیسے ، ق ، ص ، ن ، یس ، طسم ، اسی طرح کھیعص ، بھی اسی سورة مبارکہ نام ہے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان حروف مقطعات کا ہر حرف اللہ تعالیٰ کے کسی اسم صفت کو ظاہر کرتا ہے جیسے ” ک “ سے کفایت کرنے اور کافی جو کہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے ھ سے ہادی ، ی سے ید کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمام ہاتھوں پر غالب ہے اسی طرح حرف ع سے اسم علیم یا عظیم مراد ہے علیم کل اور عظمت والا صرف خداوند قدوس ہے ، اور ص سے مراد صادق ہے یعنی سچائی کا منبع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس بات کو دلیل سے تو ثابت نہیں کیا جاسکتا ، البتہ بطور کشف اور ذوق اللہ نے مجھے یہ بات سمجھائی ہے کہ یہ حروف دراصل سورة کا اجمالی نام ہیں اور ان میں سورة کا خلاصہ بیان ہوا ہے مثال کے طور پر فرماتے ہیں کہ بعض کلی نام ہوتے ہیں جن کے ساتھ ایک حقیقت وابستہ ہوتی ہے جیسے سلطان یا قاضی وغیرہ آج کل ڈگری کے ناموں ، بےاے ، ایم اے ۔ پی ایچ ڈی وغیرہ کے اندر بھی ایک پوری حقیقت ہوتی ہے ، اسی طرح حروف مقطعات بھی متعلقہ سورة کا اجمالی خلاصہ ہوتے ہیں چناچہ ’ کھیعص “ کا اجمالی خلاصہ یہ ہے کہ منتشر علوم اس مادی جہان میں آکر اس طرح متعین ہوتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والی بات آسکے ۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے (جلالین ، ص 4) (فیاض) ہیں کہ اس معاملہ میں اسلم یعنی زیادہ سلامتی والی بات یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ یہ ہو ” اللہ اعلم بمرادہ بذلک “۔ یعنی ان حروف کی صحیح مراد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، وہ مراد برحق ہے اور ہمارا اس پر پختہ یقین ہے ہم اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ، ہمارا کام ایمان لانا اور تصدیق کرنا ہے یہ ساری باتیں تقریب ذہن کے لیے بیان ہوئی ہیں کیونکہ خود حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ان حروف کی تفصیل یا معنی منقول نہیں ہیں ۔ (زکریا (علیہ السلام) کی شخصیت) سورة کی ابتداء حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ سے ہوتی ہے (آیت) ” ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا “۔ یہ ذکر ہے تیرے پروردگار کی رحمت کا جو اس نے اپنے جلیل القدر نبی زکریا (علیہ السلام) پر فرمائی ، آپ کی جائے سکونت یروشلم تھی جسے بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے اور جہاں مسجد اقصی واقع ہے ، بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ زکریا (علیہ السلام) بڑھئی کا کام کرکے اپنے ہاتھ سے رزق کماتے تھے کسی پیشے کو یا اس کو اختیار کرنے والے کو حقیر سمجھنا نہایت ہی نادانی کی بات ہے مگر اکثر لوگ اس جہالت میں ملوث ہیں کپڑا بننے والے کو حقیر سمجھنا ، برتن بنانے والے یا کپڑا سینے والے کو کم تر خیال کرنا ، بجائے خود ضلالت کی علامت ہے ، فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو شخص حقارت سے آدم (علیہ السلام) کو جولاہا یا ادریس (علیہ السلام) کو درزی کہے گا اس پر کفر لازم آئے گا بعض دولت مند اور زمیندار لوگ دوسروں کو کمین سمجھتے ہیں تاکہ وہ ان کے سامنے دبے رہیں اور ان کے حلقہ اثر سے باہر نہ نکل سکیں ، دراصل ذلت و حقارت کسی پیشے کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاق کی وجہ سے ہوتی ہے ، جس شخص کا اخلاق اچھا نہیں اور جو معاصی ، ممنوعات اور مکروہات میں ملوث ہے ، شریعت اور احکام الہی کی پردہ دری کرتا ہے ، درحقیقت ذلیل اور حقیر تو وہ ہے شریف آدمی کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کرے اللہ کی نظروں میں وہ حقیر نہیں ہے بہرحال فرمایا کہ یہ ذکر ہے تیرے پروردگار کی رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر کی ، گذشتہ سورة میں اصحاب کہف ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) اور سکندر ذوالقرنین کا حال بیان ہوچکا ہے کہ یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار تھے ، یہ خود متصرف فی الامور نہیں تھے کہ ان سے حاجت براری کی جائے ۔ (چپکے چپکے دعا) حضرت زکریا (علیہ السلام) کا متعارف کرانے کے بعد فرمایا (آیت) ” اذ نادی ربہ ندآء خفیا “۔ جب کہ پکارا اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ پکارنا ندا کا عام فہم معنی تو پکارنا ہوتا ہے تاہم یہاں پر اس سے دعا مراد ہے یعنی انہوں نے اپنے پروردگار کے حضور ﷺ چپکے چپکے سے دعا کی ، دعا اگرچہ بلند آواز سے بھی کی جاسکتی ہے تاہم آہستہ آواز سے کرنا زیادہ افضل ہے ، امام ابوبکر جصاص (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت نقل کی ہے ” خیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی “۔ بہتر ذکر وہ ہے جو آہستہ ہو اور بہتر روزی وہ ہے جو انسان کے لیے کفایت کر جائے ، خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے (آیت) ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ انہ لا یحب المعتدین “۔ (الاعراف۔ 55) اپنے پروردگار کو گریہ وزاری اور آہستگی سے پکارو کیونکہ وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، آہستگی میں بہتری یہ ہے کہ انسان ریا سے بچ جاتا ہے تاہم اگر کسی دوسرے کے معاملہ میں خلل اندازی نہ ہوتی ہو تو ذکر بلند آواز سے بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر آپ کا بلند آواز سے صلوۃ وسلام پڑھنا خلل کا باعث ہو تو فقہائے کرام کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ہوگا اور ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے قرآن پاک بھی بلند آواز سے نہ پڑھو تاکہ خلل واقع نہ ہو فرض کرو ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور دوسرا ذکر بالجہر کر رہا ہے تو یہ کوئی نیکی کی بات نہیں بلکہ نماز میں خلل اندازی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا اور ذکر آہستہ آواز سے کرنا بلند آواز سے کرنے کی نسبت ستر گنا زیادہ افضل ہے غرضیکہ (آیت) ” ندآء خفیا “۔ سے مراد آہستہ دعا کرنا ہے جیسا کہ دعا کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ (عجزوانکساری کا اظہار) قال : تو زکریا (علیہ السلام) نے چپکے چپکے سے عرض کیا (آیت) ” رب انی وھن العظم منی “۔ اے میرے پروردگار ، بیشک میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں ، (آیت) ” واشتعل الراس شیبا “۔ اور میرا سرسفیدی سے بھڑک اٹھا ہے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں ، جسم کمزور پڑگیا ہے گویا مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے یہ زکریا (علیہ السلام) کی طرف سے عاجزی انکساری اور کمزوری کا اظہار ہو رہا ہے دعا میں جس قدر انکساری پائی جاتی ہے دعا اسی قدر بارگاہ الہی میں شنوائی کے قابل ہوتی ہے ، دعا میں جس قدر اخلاص ، نیاز مندی اور حضور قلب ہوگا ، دعا اسی قدر مقبول ہوگی زکریا (علیہ السلام) اخلاص ، نیاز مندی اور حضور قلب ہوگا دعا اسی قدر مقبول ہوگی ، زکریا (علیہ السلام) نے اپنے بڑھاپے کا ذکر اللہ تعالیٰ کا ترحم اور مہربانی حاصل کرنے کیلئے کیا سعدی صاحب نے بھی گلستان میں کہا ہے ۔ رسم است کہ مالکان تحریر آزاد کنند پیر : یعنی دستور یہ ہے کہ غلاموں کے آقا اپنے بوڑھے غلاموں کو آزاد کردیتے ہیں ، جب خدمت کرنے کے قابل نہ رہا تو پھر آزاد کردیا ، شیخ سعدی نے بھی اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جذبہ ترحم پیدا کرنے لیے اپنے بڑھاپے کا ذکر کیا ہے کہ اس عمر میں اللہ اسے معاف فرما دے ۔ تو حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بھی دعا کی قبولیت کے لیے اپنے بڑھاپے اور کمزوری کا ذکر کیا ، اور پھر عرض کیا پروردگار ! (آیت) ” ولم اکن بدعآئک رب شقیا “۔ اور میرے پروردگار ! نہیں ہوں میں تجھ سے دعا کرنے میں محروم مطلب یہ کہ مجھے امید ہے کہ اس عمر میں اور عاجزی کی حالت میں تو میری اس دعا کو رد نہیں کرے گا ، بعض مفسرین یہ معنی بھی کرتے ہیں کہ اے پروردگار ! میں تیری دعوت پر کبھی بدبخت ثابت نہیں ہوا ، تو نے جب بھی مجھے بلایا ہے ، میں نے تیرے حکم کی تعمیل میں کوشش کی ہے اور کبھی پس وپیش نہیں کیا اب بوڑھا ہو کر تیری بارگاہ میں دراخوست کر رہا ہوں ، مجھے امید ہے کہ تو مجھے اس دعا سے محروم نہیں کرے گا ، اس دعا کا متن اگلی آیات میں آرہا ہے ۔
Top