بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص۔
(کوائف اور زمانہ نزول) اس سورة میں حضرت مریم (علیہا السلام) کا ذکر ہے ، لہذا یہ سورة آپ ہی کے نام پر سورة مریم کے نام سے موسوم ہے یہ سورة اٹھانوے آیات اور چھ رکوع پر مشتمل ہے ، اس کے 962 الفاظ اور 3302 حروف ہیں ۔ یہ سورة مکی زندگی کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے ۔ اس امر کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ سن پانچ اور چھ نبوی میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی دو جماعتیں مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ پہنچیں تو وہاں کے بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کے حالات معلوم کرنا چاہے چناچہ حضرت جعفر ؓ امیر قافلہ نے نجاشی کے سامنے نہ صرف حضور ﷺ اور مسلمانوں کے حالات بیان کیے بلکہ سورة مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت بھی کی جن میں حضرت مریم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کی ولادت اور دیگر حیران کن واقعات مذکور ہیں ۔ (ہجرت حبشہ) جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر عرصۃ حیات تنگ کردیا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف پہچانے لگے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دے دیا ، اس وقت حبشہ میں نجاشی بادشاہ حکمران تھا جو کہ انصاف پسند تھا ، لہذا آپ نے اس علاقہ کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ تصور کیا چناچہ حبشہ کی طرف یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی دو جماعتوں نے ہجرت کی ، پہلی جماعت میں بارہ مرد اور چار عورتیں شامل تھیں دوسری جماعت 82 یا 83 افراد پر مشتمل تھی جن میں 18 عورتیں بھی شامل تھیں ۔ (مضامین سورة ) اس سورة مبارکہ میں تین مرکزی مضامین بیان ہوئے ہیں یعنی (1) توحید (2) رسالت ، اور (3) جزائے عمل ، اس کے علاوہ بہت سی ضمنی باتیں بھی آگئی ہیں جس طرح گذشتہ سورة میں اللہ کے انبیاء اور اولیاء کا ذکر تھا ، اسی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی اللہ کئی نبیوں کا حال بیان فرمایا ہے ابتداء میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہے ، اس کے حضرت یحیٰ (علیہ السلام) پھر حضرت مریم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے ، آگے ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے واقعات بھی آئیں گے ، یہ سارے نبی اپنی حاجتیں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کرتے تھے اس کی وحدہ لا شریک اور متصرف فی الامور سمجھتے تھے ، وہ جانتے تھے کہ اس کے سوا نہ کوئی عالم الغیب ہے ، نہ مشکل کشا اور حاجت روا ، یہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ہمیشہ امید وار رہتے تھے ، اس کے برخلاف ان انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں نے انہی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کردیا ، عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ دیا اور ان کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو مادر خدا کا درجہ دے دیا (نعوذ باللہ) اور پھر انہیں متصرف فی الامور مان کر ان سے حاجتیں طلب کرنے لگے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ابتدائے سورة میں ہی ہے کہ انہوں نے اللہ سے اولاد کے لیے درخواست کی تھی پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر بھی ہے ، اس طرح اللہ نے توحید کا مسئلہ سمجھایا ہے اور انبیاء کا ذکر کے اللہ نے نبوت و رسالت کا مسئلہ بھی واضح کردیا ہے ، تیسرا مسئلہ وقوع قیامت اور جزائے عمل کا ہے وہ بھی اس سورة میں بیان ہوگیا ہے ۔ (حروف مقطعات) اس سورة کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی کھیعص ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہ اسماء اللہ میں سے اللہ کا ایک نام ہیں حضرت علی ؓ کی بعض روایات سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے بعض فرماتے ہیں کہ جس طرح بعض سورتوں کے نام حروف مقطعات پر ہیں جیسے ، ق ، ص ، ن ، یس ، طسم ، اسی طرح کھیعص ، بھی اسی سورة مبارکہ نام ہے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان حروف مقطعات کا ہر حرف اللہ تعالیٰ کے کسی اسم صفت کو ظاہر کرتا ہے جیسے ” ک “ سے کفایت کرنے اور کافی جو کہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے ھ سے ہادی ، ی سے ید کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا ہاتھ تمام ہاتھوں پر غالب ہے اسی طرح حرف ع سے اسم علیم یا عظیم مراد ہے علیم کل اور عظمت والا صرف خداوند قدوس ہے ، اور ص سے مراد صادق ہے یعنی سچائی کا منبع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس بات کو دلیل سے تو ثابت نہیں کیا جاسکتا ، البتہ بطور کشف اور ذوق اللہ نے مجھے یہ بات سمجھائی ہے کہ یہ حروف دراصل سورة کا اجمالی نام ہیں اور ان میں سورة کا خلاصہ بیان ہوا ہے مثال کے طور پر فرماتے ہیں کہ بعض کلی نام ہوتے ہیں جن کے ساتھ ایک حقیقت وابستہ ہوتی ہے جیسے سلطان یا قاضی وغیرہ آج کل ڈگری کے ناموں ، بےاے ، ایم اے ۔ پی ایچ ڈی وغیرہ کے اندر بھی ایک پوری حقیقت ہوتی ہے ، اسی طرح حروف مقطعات بھی متعلقہ سورة کا اجمالی خلاصہ ہوتے ہیں چناچہ ’ کھیعص “ کا اجمالی خلاصہ یہ ہے کہ منتشر علوم اس مادی جہان میں آکر اس طرح متعین ہوتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن میں رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والی بات آسکے ۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے (جلالین ، ص 4) (فیاض) ہیں کہ اس معاملہ میں اسلم یعنی زیادہ سلامتی والی بات یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ یہ ہو ” اللہ اعلم بمرادہ بذلک “۔ یعنی ان حروف کی صحیح مراد کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، وہ مراد برحق ہے اور ہمارا اس پر پختہ یقین ہے ہم اس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ، ہمارا کام ایمان لانا اور تصدیق کرنا ہے یہ ساری باتیں تقریب ذہن کے لیے بیان ہوئی ہیں کیونکہ خود حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ان حروف کی تفصیل یا معنی منقول نہیں ہیں ۔ (زکریا (علیہ السلام) کی شخصیت) سورة کی ابتداء حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ سے ہوتی ہے (آیت) ” ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا “۔ یہ ذکر ہے تیرے پروردگار کی رحمت کا جو اس نے اپنے جلیل القدر نبی زکریا (علیہ السلام) پر فرمائی ، آپ کی جائے سکونت یروشلم تھی جسے بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے اور جہاں مسجد اقصی واقع ہے ، بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ زکریا (علیہ السلام) بڑھئی کا کام کرکے اپنے ہاتھ سے رزق کماتے تھے کسی پیشے کو یا اس کو اختیار کرنے والے کو حقیر سمجھنا نہایت ہی نادانی کی بات ہے مگر اکثر لوگ اس جہالت میں ملوث ہیں کپڑا بننے والے کو حقیر سمجھنا ، برتن بنانے والے یا کپڑا سینے والے کو کم تر خیال کرنا ، بجائے خود ضلالت کی علامت ہے ، فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو شخص حقارت سے آدم (علیہ السلام) کو جولاہا یا ادریس (علیہ السلام) کو درزی کہے گا اس پر کفر لازم آئے گا بعض دولت مند اور زمیندار لوگ دوسروں کو کمین سمجھتے ہیں تاکہ وہ ان کے سامنے دبے رہیں اور ان کے حلقہ اثر سے باہر نہ نکل سکیں ، دراصل ذلت و حقارت کسی پیشے کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاق کی وجہ سے ہوتی ہے ، جس شخص کا اخلاق اچھا نہیں اور جو معاصی ، ممنوعات اور مکروہات میں ملوث ہے ، شریعت اور احکام الہی کی پردہ دری کرتا ہے ، درحقیقت ذلیل اور حقیر تو وہ ہے شریف آدمی کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کرے اللہ کی نظروں میں وہ حقیر نہیں ہے بہرحال فرمایا کہ یہ ذکر ہے تیرے پروردگار کی رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر کی ، گذشتہ سورة میں اصحاب کہف ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) اور سکندر ذوالقرنین کا حال بیان ہوچکا ہے کہ یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلبگار تھے ، یہ خود متصرف فی الامور نہیں تھے کہ ان سے حاجت براری کی جائے ۔ (چپکے چپکے دعا) حضرت زکریا (علیہ السلام) کا متعارف کرانے کے بعد فرمایا (آیت) ” اذ نادی ربہ ندآء خفیا “۔ جب کہ پکارا اس نے اپنے پروردگار کو آہستہ پکارنا ندا کا عام فہم معنی تو پکارنا ہوتا ہے تاہم یہاں پر اس سے دعا مراد ہے یعنی انہوں نے اپنے پروردگار کے حضور ﷺ چپکے چپکے سے دعا کی ، دعا اگرچہ بلند آواز سے بھی کی جاسکتی ہے تاہم آہستہ آواز سے کرنا زیادہ افضل ہے ، امام ابوبکر جصاص (رح) نے اپنی تفسیر میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت نقل کی ہے ” خیر الذکر الخفی وخیر الرزق مایکفی “۔ بہتر ذکر وہ ہے جو آہستہ ہو اور بہتر روزی وہ ہے جو انسان کے لیے کفایت کر جائے ، خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے (آیت) ” ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ انہ لا یحب المعتدین “۔ (الاعراف۔ 55) اپنے پروردگار کو گریہ وزاری اور آہستگی سے پکارو کیونکہ وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، آہستگی میں بہتری یہ ہے کہ انسان ریا سے بچ جاتا ہے تاہم اگر کسی دوسرے کے معاملہ میں خلل اندازی نہ ہوتی ہو تو ذکر بلند آواز سے بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر آپ کا بلند آواز سے صلوۃ وسلام پڑھنا خلل کا باعث ہو تو فقہائے کرام کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ہوگا اور ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے قرآن پاک بھی بلند آواز سے نہ پڑھو تاکہ خلل واقع نہ ہو فرض کرو ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور دوسرا ذکر بالجہر کر رہا ہے تو یہ کوئی نیکی کی بات نہیں بلکہ نماز میں خلل اندازی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا اور ذکر آہستہ آواز سے کرنا بلند آواز سے کرنے کی نسبت ستر گنا زیادہ افضل ہے غرضیکہ (آیت) ” ندآء خفیا “۔ سے مراد آہستہ دعا کرنا ہے جیسا کہ دعا کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ (عجزوانکساری کا اظہار) قال : تو زکریا (علیہ السلام) نے چپکے چپکے سے عرض کیا (آیت) ” رب انی وھن العظم منی “۔ اے میرے پروردگار ، بیشک میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں ، (آیت) ” واشتعل الراس شیبا “۔ اور میرا سرسفیدی سے بھڑک اٹھا ہے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں ، جسم کمزور پڑگیا ہے گویا مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے یہ زکریا (علیہ السلام) کی طرف سے عاجزی انکساری اور کمزوری کا اظہار ہو رہا ہے دعا میں جس قدر انکساری پائی جاتی ہے دعا اسی قدر بارگاہ الہی میں شنوائی کے قابل ہوتی ہے ، دعا میں جس قدر اخلاص ، نیاز مندی اور حضور قلب ہوگا ، دعا اسی قدر مقبول ہوگی زکریا (علیہ السلام) اخلاص ، نیاز مندی اور حضور قلب ہوگا دعا اسی قدر مقبول ہوگی ، زکریا (علیہ السلام) نے اپنے بڑھاپے کا ذکر اللہ تعالیٰ کا ترحم اور مہربانی حاصل کرنے کیلئے کیا سعدی صاحب نے بھی گلستان میں کہا ہے ۔ رسم است کہ مالکان تحریر آزاد کنند پیر : یعنی دستور یہ ہے کہ غلاموں کے آقا اپنے بوڑھے غلاموں کو آزاد کردیتے ہیں ، جب خدمت کرنے کے قابل نہ رہا تو پھر آزاد کردیا ، شیخ سعدی نے بھی اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جذبہ ترحم پیدا کرنے لیے اپنے بڑھاپے کا ذکر کیا ہے کہ اس عمر میں اللہ اسے معاف فرما دے ۔ تو حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بھی دعا کی قبولیت کے لیے اپنے بڑھاپے اور کمزوری کا ذکر کیا ، اور پھر عرض کیا پروردگار ! (آیت) ” ولم اکن بدعآئک رب شقیا “۔ اور میرے پروردگار ! نہیں ہوں میں تجھ سے دعا کرنے میں محروم مطلب یہ کہ مجھے امید ہے کہ اس عمر میں اور عاجزی کی حالت میں تو میری اس دعا کو رد نہیں کرے گا ، بعض مفسرین یہ معنی بھی کرتے ہیں کہ اے پروردگار ! میں تیری دعوت پر کبھی بدبخت ثابت نہیں ہوا ، تو نے جب بھی مجھے بلایا ہے ، میں نے تیرے حکم کی تعمیل میں کوشش کی ہے اور کبھی پس وپیش نہیں کیا اب بوڑھا ہو کر تیری بارگاہ میں دراخوست کر رہا ہوں ، مجھے امید ہے کہ تو مجھے اس دعا سے محروم نہیں کرے گا ، اس دعا کا متن اگلی آیات میں آرہا ہے ۔
Top