بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Saadi - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
آیت 1 (ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا) ” یہ آپ کے رب کی اپنے بندے زکریا پر رحمت کا ذکر ہے۔ “ جو ہم آپ کے سامنے نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کے نبی زکریا (علیہ السلام) کے احوال، ان کے آثار صالحہ اور مناقب جمیلہ کی معرفت حاصل ہوگی کیونکہ اس قصے میں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت اور پیروی کرنے والوں کے لئے ایک نمونہ ہے علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی اپنے دوستوں پر رحمت کا مفصل ذکر اور اس کے حصول کے اسباب کا بیان اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے ذکر کی کثرت، اس کی معرفت اور اس تک پہنچانے والے اسباب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا اور انہیں اپنی وحی کے لئے مختص کرلیا۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو اسی طرح ادا کیا جس طرح دیگر انبیاء ومرسلین نے ادا کیا۔ بندوں کو اپنے رب کی طرف دعوت دی اور انہیں وہ تعلیم دی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی۔ اپنی زندگی میں اور اپنی موت کے بعد ان کی اسی طرح خیر خواہی کی جیسے ان کے برادران دیگر انبیاء ومرسلین اور ان کے متبعین نے کی تھی۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو کمزور ہوتے ہوئے دیکھا تو انہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ وہ اس حال میں وفات پاجائیں گے کہ بندوں کو ان کے رب کی طرف دعوت دینے اور ان کے ساتھ خیر خواہی کرنے میں ان کی نیابت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔۔۔. تو انہوں نے اپنے رب کے پاس اپنی ظاہری اور باطنی کمزوری کا شکوہ کیا اور اسے چپکے چپکے پکارا تاکہ یہ دعا اخلاص کے لحاظ سے اکمل و افضل ہو۔ انہوں نے عرض کی : (رب انی وھن العظم منی) ” اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں “ اور جب ہڈیاں، جو کہ بدن کا سہارا ہیں، کمزور ہوجاتی ہیں تو دیگر تمام اعضاء بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ (واشتعل الراس شیبا) ” اور بڑھکا سر بڑھاپے سے “ کیونکہ بڑھاپا ضعف اور کمزوری کی دلیل، موت کا ایلچی اور اس سے ڈرانے والا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے ضعف اور عجز کو اللہ کی طرف وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ محبوب ترین وسیلہ ہے کیونکہ یہ بندے کے اپنی قوت و اختیار سے بآت اور دل کے اللہ تعالیٰ کی قوت و اختیار پر بھروسہ کرنے کے اظہار پر دلالت کرتا ہے۔ (ولم اکن بدعائک رب شقیا) ” اور تجھ سے مانگ کر اے رب، میں کبھی محروم نہیں رہا “ یعنی اے میرے رب ! تو نے کبھی بھی میری دعا کو قبولیت سے محروم کر کے مجھے خائب و خاسر نہیں کیا بلکہ تو مجھے ہمیشہ عزت و اکرام سے نوازتا اور میری دعا کو قبول کرتا رہا ہے۔ تیرا لطف و کرم ہمیشہ مجھ پر اس یہ فگن رہا اور تیرے احاسنات مجھ تک پہنچتیر ہے۔ یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی گزشتہ دعاؤں کی قبولیت کو بارگاہ الٰہی میں بطور وسیلہ پیش کیا۔ پس حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اس ہستی سے سوال کیا جس نے ماضی میں ان کو احاسنات سے نوازا کہ وہ آئندہ بھی انہیں اپنی عنایات سے نوازے۔ (وانی خفت الموالی من ورآء ی) ” اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے “ یعنی مجھے خدشہ ہے کہ میری موت کے بعد بنی اسرائیل پر کون مقرر ہوگا ؟ وہ تیرے دین کو اس طرح قائم نہیں کرسکیں گے جس طرح قائم کرنے کا حق ہے اور وہ تیرے بندوں کو تیری طرف دعوت نہیں دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آرہا تھا جس میں یہ لیاقت ہو کہ وہ ان کی دینی سربراہی کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ اس سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی شفقت اور خیر خواہی کا اظہار ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے، کہ آپ کو بیٹے کی طلب عام لوگوں کے مانند نہ تھی، جس میں مجرد دنیاوی مصلحتیں مقصود ہوتی ہیں۔ آپ کی طلب تو صرف دینی مصالح کی بنا پر تھی آپ کو خدشہ تھا کہ کہیں دین ضائع نہ ہوجائے اور آپ کسی دوسرے کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا گھرانہ مشہور دینی گھرانوں میں سے تھا اور راسلت و نبوت کا گھر شمار ہوتا تھا اور اس گھرانے سے ہمیشہ بھلائی کی امید رکھی جاتی تھی، اس لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی کہ وہ انہیں بیٹا عطا کرے جو ان کے بعد دینی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی بیوی بانجھ ہے اور وہ بچہ جننے کے قابل نہیں اور وہ خود بھی بہت بوڑھے ہوگئے ہیں اور ایسی عمر میں داخل ہوگئے ہیں کہ جس میں شہوت اور اولاد کا وجود بہت نادر ہے۔ انہوں نے عرض کی : (فھب لی من لدنک ولیا) ” سو عطا کر تو مجھ کو اپنی طرف سے ایک معاون “ اور یہ ولایت، دینی ولایت ہے اور نبوت، علم اور عمل کی میراث ہے، اس لئے فرمایا : (یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ رب رضیا) ” جو وارث ہو میرا اور وارث ہو یعقوب کی اولاد کا اور کر اس کو اے میرے رب پسندیدہ “ یعنی اسے نیک بندہ بنا جس سے تو راضی ہو اور تو اسے اپنے بندوں کا محبوب بنا دے۔ غرضیکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے صالح بیٹے کی دعا کی جو ان کے مرنے کے بعد باقی رہے، جو ان کا ولی اور وارث بنے، اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے نزدیک نہایت پسندیدہ اور نبی ہو۔ یہ اولاد کی بہترین صفات ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر بےپایاں رحمت ہے کہ وہ اسے ایسا نیک بیٹا عطا کرے جو مکارم اخلاق اور قابل ستائش عادات کا جامع ہو۔
Top