بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کاف۔ ھا۔ یا۔ عین۔ صاد۔
لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 10 ذکر یاد، تذکرہ۔ وھن کمزوری، بیماری، خرابی۔ العضم ہڈی، ہڈیاں، اشتعل پھیل گیا، یا بھڑک اٹھا۔ شیب سفید بال، بڑھاپا۔ شقی محروم، نامراد۔ الموالی رشتہ دار۔ عاقر بانجھ (اولاد سے مایوس) ۔ سمی نام ، رکھنا۔ عتی انتہائی بڑھاپا۔ ھین آسان، سہل۔ سوی ٹھیک ہونا۔ برابر ہونا۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 10 اللہ تعالیٰ نے سورة مریم کا آغاز حروف مقطعات سے کیا ہے جن کے معنی کا علم اللہ کو ہے۔ پھر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ سے کیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) تمام قوم بنی اسرائیل کے پیشوا، رہنما اور بیت المقدس کے متولی اور نگران تھے۔ حضرت زکریا حضرت مریم کے سگے خالو تھے۔ جب حضرت زکریا کی عمر مبارک 120 سال کی ہوگئی اس وقت اللہ نے حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ جیسا عظیم بیٹا عطا فرمایا جن کا نام بھی اللہ نے رکھا اور ان کو نبوت کی بہت سی اعلیٰ صفات عطا فرمائی گئیں۔ اہل ایمان کو حضرت زکریا کا واقعہ سنا کر بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے ان کو بڑھاپے کی انتہاؤں پر بیٹا عطا کیا جو بظاہر ناممکن تھا لیکن اللہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ اس میں ان کو یہ تسلی بھی دی گیء ہے کہ اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات میں تصرف فرماتا ہے اسی کی قدرت ہے جس نے بغیر ماں باپ کے آدم (علیہ السلام) کو اور بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا ہے ۔ جو بھی اس کی بارگاہ میں جھک کر اور عاجزی اور انکساری سے مانگتا ہے وہ ضرور عطا کرتا ہے اور کوئی شخص اس کی رحمت اور اس کے کرم سے محروم نہیں رہتا۔ گویا جان نثاران مصطفیٰ ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ اے اصحاب رسول ! تم انبیاء کے راستے پر چل رہے ہو اور اس کے لئے ہر طرح کی قربانیاں پیش کر رہے ہو تو یہ مت سمجھنا کہ اللہ تمہاری قربانیوں اور ایثار سے بیخبر ہے بلکہ اس کو تمہاری ہر کیفیت کا علم ہے اور وہ تمہیں بہت جلد عظمت کی بلندیوں تک پہنچائے گا۔ مگر اس کے لئے وقت کا انتظار اور ایثار و قربانی سے کام لے کر صبر و تحمل سے حالات کو برداشت کرنا ہوگا۔ پھر یہی لوگ تمہارے قدموں پر جھکنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے۔ قرآن کریم میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے حضرت مریم کی پیدائش سے پہلے یہ منت مان لی تھی کہ اے اللہ میرے گھر میں جو بھی اولاد پیدا ہوگی اس کو میں بیت المقدس کی خدمت کیلئے وقف کر دوں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو پیدا کیا تو حضرت مریم کی والدہ بہت پریشان ہوگئیں کہ لڑکی کو میں بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کر دوں۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے متولی اور نگران حضرت زکریا (علیہ السلام) تھے جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے ۔ چناچہ ان کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نگرانی میں دے دیا گیا۔ حضرت مریم انتہائی نیک اور پارسا تھیں وہ دن رات اپنے حجرے میں اللہ کی عبادت و بندگی کرتی رہتی تھیں۔ حضرت زکریا اکثر حضرت مریم کے حجرے میں خیریت معلوم کرنے جاتے رہتے تھے ۔ ان دن انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم کے پاس بےموسم کے پھل رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ مریم ! یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے ہیں ؟ حضرت مریم نے کہا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) جو اللہ کے نبی تھے سمجھ گئے کہ حضرت مریم پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہے اور بےموسم کے پھل دیکھ کر اللہ کے سامنے جھک گئے اور کچھ اس طرح دعا کی الٰہی ! (اگر آپ مریم کو بےموسم پھل دے سکتے ہیں تو) بیشک میں بوڑھا ہوگیا ہوں میرے سر کے بال بھی انتہائی سفید ہوگئے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے جس کے ہاں اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن آپ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ مجھے ایک وارث عطا فرما دیجیے جو میرے مقصد اور مشن کو آگے لے کر چلے اور وہ ان علوم کا صحیح وارث بن سکے جو آپ نے مجھے عطا فرمائے ہیں کیونکہ مجھے قوم بنی اسرائیل میں سے کوئی بھی اس کا اہل نظر نہیں آتا جو اس علم کی میراث کو لے کر چل سکے۔ ظاہر ہے اس دعا میں آپ اپنا وارث مال و دولت کے لئے نہیں مانگ رہے تھے کیونکہ انبیاء کرام اللہ کے علوم کے وارث ہوتے ہیں وہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں درہم و دینار نہیں چھوڑتے۔ انہیں اپنے مشن اور مقصد سے پیار ہوتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی زندگی میں اور بعد کی زندگی میں راہ مستقیم کو نہ چھوڑیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اس مشن اور مقصد کے لئے اللہ سے دعا فرمائی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) جو پوری عاجزی و انکساری سے دعا فرما رہے تھے۔ اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ اللہ نحے ان کی دعا ضرور قبول کرلی ہوگی کیونکہ اس دعا کا مقصد صرف دنیا کی غرض اور سکون نہیں تھا بلکہ بنی اسرائیل کے لئے رشد و ہدایت کی درخواست تھی چنانچہ ایک دن حضرت زکریا عبادت میں مشغول تھے کہ اللہ کے فرشتے نے ان کو دعا کی قبولیت کی خوش خبری سنائی اور کہا کہ اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی ہے اور ایک ایسا بیٹا عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام یحییٰ ہوگا۔ یہ سنا تو حیرت، تعجب اور شوق سے پوچھا کہ کیا میرے گھر ایک ایسا بیٹا ہوگا۔ جس کا نام بھی اللہ خود ہی نے رکھ دیا ہے ؟ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ ؟ کیونکہ میں انتہائی بوڑھا ہوچکا ہوں۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ فرشتے نے کہا کہ یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ یہ کام اسی طرح ہو کر رہے گا اور ایسا کرنا اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ اللہ کے لئے آسان ہے۔ فرمایا کہ تم خود اپنے وجود پر غور کرلو کہ تم کچھ بھی نہ تھے لیکن آج تم ایک انسانی شکل میں موجود ہو۔ جب حضرت زکریا کو پورا اطمینان ہوگیا تو عرض کیا الٰہی ! اس کی علامت کیا ہوگی ؟ اللہ نے فرمایا کہ اس کی ایک نشانی یہ ہوگی کہ تم تین راتوں تک سوائے اشاروں کے کسی سے بات نہ کرسکو گے۔ اس طرح اللہ نے تمام اہل ایمان کو بتا دیا کہا للہ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کو دنیا کے لوگوں کی طرح اسباب اور وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ جب وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہونے کا حکم دیتا ہے اور وہ چیز وجود اختیار کرلیتی ہے۔
Top