بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل فرمایا اور اس (کے احکام) کو ہم نے فرض کردیا (مقرر کردیا) اور ہم نے اس میں صاف صاف آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ تم یاد رکھو
سورة النور : (رکوع نمبر 1) اسرارومعارف سورة نور مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور شرمگاہوں کی حفاظت نیز عفت و پاکدامنی کا ذکر جب چلا تو اس کے خلاف کرنے پر اسلام نے سز امقرر فرما دی ، اسلام نے بھی قاضی اور جج کے لیے موقع کی مناسبت شہادت اور قرائن یا اقبال و انکار جرم وغیرھا چیزوں پر غور کرکے انسداد جرائم کے لیے سزا تجویز کرنے کا موقع رکھا ہے کہ سزا سے مراد معاشرہ کی اصلاح اور خود مجرم کی اصلاح بھی ہے اور قاضی کی تجویز کردہ سزا کو اصطلاح میں تعزیر کہا جاتا ہے مگر چار باتوں پہ جج کو سزا میں کمی بیشی کا اختیار نہیں صرف شہادت لے کر واقعہ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ دے گا سزا اللہ جل جلالہ نے خود مقرر کر ی ہے ان چار امور پر مقرر کردہ سزائیں حدود کہلاتی ہیں اور جن چار جرائم پہ حد جاری ہوتی ہے وہ یہ ہیں ۔ (1) چوری ۔ (2) پاک دامن خاتون پر تہمت لگانا۔ (3) شراب پینا اور (4) زنا ، پہ چاروں جرائم اس قدر گھناؤنے ہیں کہ جس معاشرے میں پائے جائیں اس کا امن بھی تباہ ہوجاتا ہے اور دنیا کے اعتبار سے بھی کبھی نہیں پھولتا پھلتا اور دین بھی برباد ہوجاتا ہے کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت سے یقین اٹھ جاتا ہے ، خصوصا شراب نوشی اور زنا کے اثرات کو مغرب کی دنیا میں دیکھا جائے تو عبرت کا بہت بڑا سامان ہے کہ وہاں نہ کوئی رشتہ محفوظ ہے اور نہ نسب کی کوئی قدر نہ عزت و شرافت بچتی ہے اور نہ حیا کا کوئی تصور ابن آدم جانوروں کیا خنزیروں سے بدتر زندگی گذار رہا ہے اور دینی ودنیاوی رشتے تباہ ہوچکے ہیں بھلا جس معاشرے میں شرم وحیا ناپید عزت وناموس عنقا رشتوں کا تقدس ختم ہوچکا ہو اسے کسی خوبی کی بنا پر انسانی معاشرہ کہا جاسکتا ہے ہرگز نہیں دنیا پہ انہوں نے ظاہرا رعب بنا رکھا ہے مگر اندر سے بہت کمزور اور کھوکھلے ہیں ، امریکہ ساری طاقت لگانے کے باوجود ویت نام سے مار کھا کر لوٹا ، روس افغانستا پر چڑھ دوڑا مگر مجاہدین کے مقابلہ میں تباہ ہوگیا ، چالیس مغربی ممالک نے مل کر عراق پر حملہ کیا مگر اس کا اتنا نقصان نہ ہوا جتنے نقصان کا سامنا امریکہ ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ کو کرنا پڑا ، یہ محض بڑھکیں لگا کر اور دھوکہ دے کر دنیا پر رعب جمائے ہوئے ہیں ، اے کاش مسلمان بیدار ہو اور اللہ کا نام لے کر جہاد کی طرف بڑھے تو انہیں اپنی حیثیت یا د آجائے یہ شراب اور زنا کے مارے ہوئے معاشرے اللہ جل جلالہ کی زمین پر بوجھ ہیں تو اسلام نے ان خطرات کا پوری طرح سد باب کیا ہے یہاں زنا پر مقرر کردہ سزا کا بیان ہے لہذا ارشاد ہوتا ہے کہ یہ سورت ہم نے نازل کی ہے اور اس کے معانی ومفاہیم ہم نے مقرر فرمائے ہیں جن کا ماننا اور ان پر عمل کرنا تم سب مسلمانوں پر لازم ہے نیز اس میں بڑی واضح دلیلیں اور کھری باتیں ارشاد کی گئی ہیں تاکہ تم ان کو یاد رکھو اور ان سے نصیحت حاصل کرو ۔ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ انہیں سو سو کوڑے مارے جائیں نیز جرائم پر سزا دینے کے معاملے میں تم میں سے کوئی بھی نرمی اختیار نہ کرے کہ یہ اللہ جل جلالہ کا دین ہے محض کسی سیاسی حکومت کا قانون نہیں یعنی یہ صرف حکم کی تعمیل ہی نہیں اللہ جل جلالہ کی رضا کا سبب بھی ہے اور یقینا اس پہلو سے تو وہی نظر کرے گا جسے اللہ جل جلالہ کے ساتھ اور روز آخرت کے ساتھ ایمان نصیب ہوگا مزید یہ کہ یہ سزا سرعام دی جائے اور عامۃ المسلمین اس کو دیکھیں کہ معاشرہ اس سے عبرت حاصل کرے اور ایسا قبیح فعل کرنے والوں کی سزا میں رسوائی کا اضافہ بھی ہو ، صحیح حدیث اور عمل نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام سے ثابت ہے کہ یہ سزا کنوارے مرد اور غیر شادی شدہ عورت کے لیے مخصوص ہے اور شادی شدہ عورت یا مرد اگر زنا کے مرتکب ہوں گے اور وہ ان پر ثابت ہوجائے تو انہیں سرعام سنگسار کیا جائے گا ، ” سنگسار کرنا پتھر برسا کر ہلاک کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ “ حقیقتا زنا کی سزا میں بھی تدریج ہے یعنی شروع میں اس سے نرم سزا رکھی گئی پھر بتدریج سخت کردی گئی کہ پہلے سورة نساء میں گذر چکا کہ اگر عورت پر چار گواہوں سے یہ جرم ثابت ہوجائے کہ تو اسے گھر میں قید رکھا جائے اور مرد کو ایذا دی جائے تاآنکہ اللہ جل جلالہ کوئی راستہ پیدا کردے یا انہیں موت آجائے اب وہ راستہ اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ سو سو کوڑے سرعام مارے جائیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سزا غیر شادی شدہ کے لیے ہے قرآن اور حدیث دونوں وحی الہی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے لیے دونوں میں کوئی فرق نہ تھا اسی زبان مبارک نے انہیں قرآن بھی سنایا جس سے انہوں نے حدیث سنی لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ رجم اور سنگسار کا تذکرہ قرآن میں نہیں لہذا یہ سزا ہی مناسب نہیں ایسا کہنے والا مومن نہیں ہو سکتا ۔ جو حدیث رسول کو اہم اور قابل عمل نہ سمجھتا ہو تو کیا اسے قرآن کسی اور ذریعے سے ملا ہے لہذا یہ قانون ہے کہ اگر کنوارے مرد وعورت پر یہ جرم ثابت ہو تو سرعام انہیں کوڑے مارے جائیں گے اس کے ساتھ جج کی صوابدید پر ہے کہ ضروری سمجھے کہ مرد کو ایک سال جلاوطن بھی کرسکتا ہے اور اگر شادی شدہ عورت اور مرد اس جرم میں ملوث ہوں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ، یہ نہ صرف نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے ثابت ہے بلکہ یہ سزا آپ نے جاری فرمائی حتی کہ ایک کنوارے لڑکے کو سو کوڑے مارے گئے اور شادی شدہ خاتون کو سنگسار کیا گیا ، یہی سزا خلافت راشدہ اور بعد کی اسلامی حکومتوں میں جاری کی گئی تفصیل کے لیے احادیث وفقہ کی کتب دیکھی جائیں ، یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ ہاں جن جرائم پر سخت سزا دی گئی ہے اور انہیں معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ قرار دے کر اس کے سدباب کا اہتمام کیا گیا ہے وہاں ان پر ثبوت کے لیے شہادت بھی سخت رکھی گئی ہے اگر شہادت میں ذرا کمی رہ گئی یا شبہ پیدا ہوا تو حد جاری نہ ہوگی جج کی صوابدید پر تعزیری سزا دی جائے گی نیز شہادت کے لیے دو مرد یا ایک مراد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہے مگر سنگسار کرنے کے لیے چار مردوں کی عینی شہادت ضروری ہے اور وہ بھی ایسی کہ جس شہادت سے زنا ثابت ہو ورنہ محض برہنہ پایا جانا اور کسی غیر شرعی صورت میں تعزیر ہوگی اور شہادت غلط ثابت ہوگئی جرم ثابت نہ ہوسکا تو گواہوں پر حد قذف جاری ہوگی یعنی جھوٹی تہمت لگانے کی سزا اور وہ اسی کوڑے ہے اس کے علاوہ مختلف غیر شرعی صورتوں میں تعزیر ہوگی اور زنا کس قدر نقصان دہ ہے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ تو لوگوں کے مزاج تک بدل دیتا ہے اور زنا کا عادی مرد نکاح کے لیے بھی ایسی عورت ہی کو پسند کرتا ہے جو زانیہ اور بدکار ہو یا بےدین ومشرک کہ اس کا مقصد شہوت رانی ہوتا ہے اسی طرح زانیہ عورت بھی نکاح کے مقصد اصلی یعنی بقائے نسب اور شرافت کے لیے نہیں شہوت رانی کے لیے کسی زانی مرد یا بےدین مرد کو پسند کرتی ہے حالانکہ خود زنا اور محض شہوت رانی کے لیے نکاح ایمان والوں پر حرام کردیا گیا اور نکاح کا مقصد ایک شریف صحیح النسب اور نیک خاندان کی بنیاد رکھنا ہے نہ کہ محض شہوت رانی۔ فقہا کے مطابق اگر دو زانی مرد عورت آپس میں نکاح کریں گے تو ان کا مقصد کچھ بھی ہو نکاح منعقد ہوجائے گا اور اولاد کا نسب ثابت ہوگا وراثت وغیرہ کے احکام جاری ہوں گے برخلاف مشرکہ یا مشرک کے کہ مسلمان کا نکاح ان سے منعقد ہی نہ ہوگا نیز جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے کی جرات نہ کی جاسکے نیز آئندہ کے لیے ان کی گواہی قبول نہ کی جائے کہ وہ سخت بدکار لوگ ہیں ، یہ سزا تو اسے ہر حال بھگتنا ہوگی اگر توبہ کرلے اور اس کے بعد ایسا جرم نہ کرے اپنی اصلاح کرلے تو آخرت کا عذاب اللہ کریم معاف فرما دیں گے کہ وہ بہت بڑے بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی مرد اپنی ہی بیوی پر تہمت لگائے تو اسے بھی چار گواہ لانے ہوں گے یا پھر چار دفعہ اللہ کی قسم کھائے گا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں بار کہے گا کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو اس پر اللہ جل جلالہ کی لعنت ہو ۔ اسے شریعت میں لعان کہا گیا ہے یعنی لعنت کرنا ، اس کی صورت یہی ہے کہ میاں بھی چار گواہ لائے ورنہ قید کیا جائے گا اور اگر اپنا جھوٹا ہونے کا اقرار کرے گا تو تہمت کی حد یعنی اسی کوڑوں کی سزا پائے گا یا پھر چار دفعہ اللہ جل جلالہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اگر اس نے جھوٹ کہا ہو تو اس پر اللہ جل جلالہ کی لعنت تو سزا سے بچ جائے گا مگر عورت پر حد جاری نہ ہوگی بلکہ اسے بھی موقع دیا جائے گا ہاں جرم کا اقرار کرے تو سزا پائے گی ورنہ چار بار قسم کھا کر کہے کہ اگر وہ مرد جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ جل جلالہ کا غضب ہو تو وہ سزا سے بچ جائے گی مگر لعان کرنے سے وہ ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے اور پھر کبھی ان کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا ، نیز اس کی تفصیل بھی کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ، مفسرین کرام نے لعان کے واقعات جو عہد رسول اللہ ﷺ میں وقوع پذیر ہوئے نقل فرمائے ہیں ۔ اور اگر اللہ تم پر مہربان نہ ہوتا اور تم پر اس کی رحمت سایہ فگن نہ ہوتی تو تمہارا اسلامی معاشرہ بھی غیر اسلامی معاشرے کی طرح تباہ شدہ ڈھانچہ بن جاتا مگر یہ اس کا کرم ہے کہ سخت سزا مقرر فرما کر معاشرے کی حفاظت فرمائی اور توبہ کا دروازہ کھلا رکھ کر گناہگار کی آخرت کے عذاب سے بچنے کی صورت پیدا فرما دی وہ بہت ہی بڑی حکمتوں کا مالک ہے ۔
Top