Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
جو (مال) ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ مریں اس میں مردوں کا (بھی) حصہ ہے اور جو (مال) ماں باپ اور قرابت دار چھوڑ مریں اس میں عورتوں کا بھی حصہ ہے وہ تھوڑا ہو یا بہت یہ حصہ (اللہ کا) مقرر کیا ہوا ہے
آیت 7 تا 8 ۔ للرجال نصیب تا وسیصلون سعیرا۔ قانون وراثت : مال اگرچہ بےوقعت ہرگز نہیں مگر اس قدر قیمتی بھی نہیں کہ آدمی صرف مال کے حصول پہ نگاہ رکھے اور اس میں دوسروں کے حقوق تک کی پرواہ نہ کرے جیسا کہ قبل اسلام ہوتا تھا کہ عورت سرے سے وارث ہی نہ تھی اور نابالغ بچے بھی وارث نہ تھے سو اگر بالغ اور مذکر اولاد ہوتی تو کچھ پا لیتی ورنہ مرنے والے کے ورثا سب مال لے اڑتے تھے پھر اس میں بھی بعض چیزیں مثلا گھوڑا تلوار زرہ یا اس قسم کی دوسری اشیاء مستثنی قرار دی گئی تھیں اسلام نے اس سارے معاملے کو نہایت حسن و خوبی سے سلجھا دیا۔ فرمایا والدین یا قرابت دار جو ترکہ چھوڑ کر مریں اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی چھوٹے ہوں یا بڑے اور یہ حصہ اللہ کریم کی طرف سے مقرر ہے نیز ہر چیز میں حصہ داری ہوگی وہ چیز چھوٹی ہے یا بڑی۔ مرد اگر وراثت پا لے گا تو عورت بھی پا لے گی نیز کوئی شے تقسیم سے مستثنی نہیں کی جائے گی اور یہ حصہ اللہ کریم کی طرف سے مقرر ہے اس میں لینے والے کی رضامندی بھی شرط نہیں بلکہ وہ شرعی طور پر مالک ہوجائے گا ہاں اپنا حصہ لے کر کسی کو دے دے یا شرعی طور پر مالک بن کر اپنا حصہ کسی کو ہبہ کردے یا تقسیم کردے تو الگ بات ہے۔ وراثت کا سبب دو چیزوں کو قرار دیا الوالدان والاقربون رشتہ ولادت جو اولاد اور والدین کے درمیان ہے دوسرے قرابت جس میں تمام رشتے خواہ وہ ازدواجی ہوں یا خاندانی سب شامل ہیں۔ اور یہ قانون بن گیا کہ وراثت کے لیے صرف رشتہ داری کافی نہ ہوگی بلکہ اقرب یعنی قریب تر ہونا مستحق ثابت کرلے گا۔ اور قریبی رشتہ دار کے ہوتے ہوئے دور کا رشتہ دار وارث نہیں ہوگا۔ ہاں جو لوگ قرابت میں برابردرجہ رکھتے ہوں گے سب وارث قرار پائیں گے اس حصے کے مطابق جو اللہ کریم نے مقرر فرما دیا ہے اگر ایسا نہ ہو اور سب رشتہ دار وارث قرار دئیے جائیں تو روئے زمین کے سب انسان ایک دوسرے کے وارث ہوں گے کہ سب ایک والد کی اولاد ہیں۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کی ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کی خدمت میں ایک آدمی نے پیغام بھجوایا کہ آپ کا بھائی باہر موجود ہے اور اتنی بڑی ریاست میں سے اپنے حصے کا طالب ہے انہوں نے طلب فرمایا اور پوچھا تم میرے کس طرح بھائی ہو۔ کہنے لگا آپ بھی آدم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں اور میں بھی۔ انہوں نے نصف درہم دے دیا بڑا حیران ہوا کہ اتنی بڑی سلطنت میں بھائی کا صرف یہ حصہ فرمایا بھاگ جاؤ اگر دوسرے بھائیوں نے سن لیا تو یہ بھی نہیں ملے گا۔ سو یہی حال ہوتا اس لیے قانون بن گیا کہ قریبی رشتہ دار ہو تو رشتہ بعید وارث نہ ہوگا اس ضمن میں پوتا بھی آ گیا کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتا وارث نہ ہوگا خواہ اس کا باپ زندہ ہو یا نہ۔ نیز کسی کا ضرورت مند ہونا بھی وارث نہیں بناتا کہ اس کا بھی کیا ثبوت کون زیادہ ضرورت مند ہے نیز آج کا ضرورت مند کل کا غنی اور آج کا غنی کل کا ضرورت مند ہوسکتا ہے۔ ہاں اگلی آیہ کریمہ میں اس کمی کا ازالہ فرما دیا کہ جب میراث تقسیم ہو رہی تو رشتہ دار جو وارث تو نہیں بن سکے مگر رشتہ داری تو ہے اور یتیم و مسکین لوگ اگر وہاں حاضر ہوں تو انہیں کچھ نہ کچھ دے دیا جائے تاکہ وہ محروم نہ رہیں یہ بہت بڑی نیکی اور صلہ رحمی ہے نیز ان سے خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے اور شیریں کلامی سے پیش آئیں تو اگر چچا ہوں یا پھپھیاں یتیم بھتیجے کو اپنے اپنے حصے سے دے دیں تو دوہرا اجر وثواب پائیں اور اس کی نہ صرف دل داری ہو بلکہ مال سے کسی قدر حصہ بھی پا لے ہوسکتا ہے دوسروں سے زیادہ مال اسے مل جائے و نیز اللہ کریم خود رزاق ہے جن کو وراثت نہیں ملتی بلکہ والدین قرضہ چھوڑ کر مرتے ہیں۔ ان کی روزی کہاں سے آتی ہے یہ تو بڑا سیدھا سادا قانون تھا جسے جدید مجتہدوں نے الجھانے کا پروگرام بنا رکھا ہے اور ایک شور بپا کر رکھا ہے۔
Top