Baseerat-e-Quran - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
اس ترکہ میں جو والدین نے یا دوسرے رشتہ داروں نے چھوڑا ہے مرد بھی حصہ دار ہیں۔ اور عورتیں بھی اس ترکہ میں حصہ دار ہیں جو والدین نے یاد یگر اقربا نے چھوڑا ہے۔ خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔ یہ حصے (اللہ کی طرف سے) مقرر ہیں۔
آیت نمبر 7 – 10 لغات القرآن : نصیب، حصہ۔ ترک، چھوڑا۔ قل، تھوڑا ہو۔ کثیر، زیادہ۔ نصیب مفروض، حصہ مقرر ہے۔ القسمۃ، تقسیم۔ ولیخش، اور ڈرنا چاہیے۔ ضعف، کمزور، ناتواں۔ سیصلون، جلد ہی وہ ڈالے جائیں گے۔ سعیر، بھڑکتی آگ۔ تشریح : نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے عرب میں ایسے ظالمانہ طریقوں کا رواج تھا جس سے عورتوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم ہوا کرتے تھے ان ہی میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ عورتوں کو ترکہ نہیں دیا جاتا تھا قرآن کریم نے اس ظالمانہ رواج کو توڑا اور عورتوں کو بھی اسی طرح حصہ دلایا جس طرح مردوں کو۔ عرب میں کم مال تقسیم نہیں ہوتا تھا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مال و دولت، جائیداد وغیرہ کم ہو یا زیادہ بہرحال میراث تقسیم ہوگی۔ اور یہ بھی کہا کی میراث کے حصے اللہ کی طرف سے مقرر ہیں۔ ان میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں دیا گیا۔ تقسیم میراث کے موقع پر چند لوگ بھی آسرا لگا کے آجاتے ہیں جن کا کوئی حصہ نہیں نہیں ہوتا۔ ان میں دوردراز کے رشتہ دار، یتیم اور بیوائیں اور دوسرے حاجت مند بھی ہوتے ہیں۔ وہ ورثا جو موقع پر موجود ہیں ان سے اخلاق کا تقاضا ہے کہ کچھ دے دلا کر ایسے لوگوں کی دلداری کریں اور نرم گفتگو کے ذریعہ ان کا دل ہاتھ میں لیں۔ مگر ایسے لوگوں کو اس مال میں سے دینا جائز نہیں جو یتیموں کا حصہ ہے یا غائب ورثا کا حصہ ہے۔ صرف حاضر اور بالغ ورثا اپنے اپنے مال میں سے دے سکتے ہیں۔ اس طرح شریعت انہیں بھی نہیں بھولی جن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حصہ پانے والوں، پا نے والیوں اور تقسیم میراث کے وقت حاضر افراد کو لازم ہے کہ کوئی غلط مطالبہ یا غلط گفتگو نہ کریں اور لالچ، ظلم اور دھوکے سے دور رہیں۔ دل میں ہر وقت اللہ کا خوف ہو۔ زبان پر نرم بلکہ شیریں الفاظ ہوں۔ ذرا دل میں غور کریں اگر وہ نابالغ بےبس یتیم بچوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر مر رہے ہوں تو وہ دوسروں سے کیسی کیسی امیدیں اور اندیشے رکھتے ہوں گے ۔ جیسا وہ دوسروں کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسا خود بھی کرکے دکھائیں۔ آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں جہنم کے انگارے بھر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ ضرور جہنم میں جائیں گے۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں پیش ہوں گے کہ پیٹ کے اندر سے آگ کی لپٹیں منہ ناک کانوں اور آنکھوں کو جھلس رہی ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا ” میں تمہیں خاص طور پر دو طرح کے کمزوروں کے مال سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں۔ عورت اور یتیموں کے مال سے۔ یہ جو آیت نمبر سات میں لفظ ” اقربون “ ہے اس سے تین اصول مرتب ہوتے ہیں۔ (1) تقسیم میراث رشتہ داری کی بنیاد پر ہے۔ جو رشتہ دار جتنا نزدیکی ہوگا اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ (2) اقربون میں مرد عورت دونوں شامل ہیں۔ (3) میراث کی تقسیم میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کون کتنا ضرورت مند ہے بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کون رشتہ میں کتنا قریب ہے۔
Top