Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے (خدا کے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔
(للرجال نصیب مما ترک الوالدان کا شان نزول) 7۔ یہ آیت اوس بن ثابت انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ، یہ شخص جب وفات پا گیا تو اس نے ایک عورت ام کجہ اور اس سے تین بیٹیاں چھوڑیں ، اس کے دو چچا زاد بھائی خالد (سدید) اور عرفجہ تھے ، دونوں نے آکر ساری میراث پر قبضہ کرلیا (اس کی بیوی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا عرض کردیا) زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور چھوٹے بچوں کو میراث سے حصہ نہیں دیتے تھے، اگرچہ وہ بچہ ہو یا بچی اور وہ کہتے کہ ہم وارثت کا حصہ نہیں دیتے مگر جس کا گھر والا جہاد میں شریک ہو اور شہید ہوجائے۔ وہ عورت آپ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ﷺ اوس بن ثابت تین بیٹیاں چھوڑ کر وفات پا گیا اور میں اس کی بیوی ہوں اور میرے پاس کوئی چیز نہیں جو ان بچیوں پر خرچ کروں اور اس کے باپ نے بہت سارا مال چھوڑا وہ سب سوید اور عرفجہ کے پاس ہے ، اس نے نہ مجھے کچھ دیا اور نہ ہی میری بیٹیوں کو کوئی چیز عطا فرمائی اور وہ میری پرورش میں ہیں ، میرے پاس نہ کھلانے کے لیے کچھ ہے اور نہ پلانے کے لیے کچھ ہے ، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے پاس بلا لیا اور وہ دونوں کہنے لگے کہ اس کا کوئی لڑکا نہیں جو سوار ہو سکے گھوڑے پر اور نہ کوئی بوجھ لاد سکتا ہے اور نہ ہی دشمن سے لڑ سکتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ” للرجال “۔ میت کی مذکر اولاد اور اس کے قریبی رشتہ دار ” نصیب “ بمعنی حصہ ہے (آیت)” مما ترک الوالدان والاقربون “۔ میراث سے جو انہوں نے چھوڑا ہے ” وللنسائ “ ورثاء میں سے جو عورتیں ہیں ، (آیت)” نصیب مما ترک الوالدان والاقربون “۔ ۔۔۔۔” مما قل منہ “۔ اس سے مراد میراث کا مال ہے ، ” اوکثر “ (آیت)” نصیبا مفروضا “ منصوب ہے ، بعض نے کہا کہ عورتوں کا حصہ مقرر کیا گیا پھر ان کے لیے میراث ثابت ہوگئی ، یہ بیان نہیں کی کہ کتنی میراث ہے ، آپ ﷺ نے سوید اور عرفجہ کی طرف ایک شخص کو بھیجا اور بلوایا اور کہا کہ تم اس کے مال کو تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ نے ترکہ میں اس کی لڑکیوں کو حصہ دار بنایا ہے مگر حصہ متعین نہیں ہوا، میں لڑکیوں کے متعلق حکم کے نزول کا منتظر ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے ” یوصیکم اللہ “ نازل فرمائی ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سوید اور عرفجہ کو حکم دیا کہ اس کی بیوی کو کل مال سے آٹھواں حصہ اور ان کی بیٹیوں کو ثلثان دیا جائے اور باقی مال تم دونوں کا ہے۔
Top