Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ
: مردوں کے لیے
نَصِيْبٌ
: حصہ
مِّمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا
الْوَالِدٰنِ
: ماں باپ
وَالْاَقْرَبُوْنَ
: اور قرابت دار
وَلِلنِّسَآءِ
: اور عورتوں کے لیے
نَصِيْبٌ
: حصہ
مِّمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا
الْوَالِدٰنِ
: ماں باپ
وَالْاَقْرَبُوْنَ
: اور قرابت دار
مِمَّا
: اس میں سے
قَلَّ
: تھوڑا
مِنْهُ
: اس سے
اَوْ كَثُرَ
: یا زیادہ
نَصِيْبًا
: حصہ
مَّفْرُوْضًا
: مقرر کیا ہوا
مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے تھوڑا ہو یا بہت ہو حصہ مقرر کیا ہوا ہے
ربط آیات
سورة نساء میں اول ہی عام انسانی حقوق خصوصاً عائلی زندگی سے متعلق حقوق کا بیان چل رہا ہے، اس سے پہلی آیت میں یتمیوں کے حقوق کا بیان تھا، مذکورہ چار آیتوں میں بھی عورتوں اور یتیموں کے خاص حقوق متعلقہ وراثت کا بیان ہے۔
پہلی آیت میں جاہلیت کی اس رسم کو باطل کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں عورتوں کو میراث کا مستحق ہی نہیں مانا جاتا تھا، اس آیت نے ان کو اپنے شرعی حصہ کا مستحق قرار دے کر ان کے حق میں کمی کرنے اور نقصان پہنچانے کی سخت ممانعت کی، پھر چونکہ مستحقین میراث کا ذکر آیا تھا اور ایسے موقع پر تقسیم کے وقت غیر مستحقین فقراء اور یتیم بچے بھی حاضر ہوجایا کرتے ہیں تو دوسری آیت میں ان کے ساتھ حسن سلوک اور مراعات کا حکم ارشاد فرمایا، لیکن یہ حکم وجوبی نہیں، بلکہ استحبابی ہے۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی احکام یتامی کے سلسلہ میں اسی مضمون کی تاکید ہے۔
خلاصہ تفسیر
مردوں کے لئے بھی (خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے) حصہ (مقرر) ہے اس چیز میں سے جس کو (ان مردوں کے) ماں باپ اور (دوسرے) بہت نزدیک کے قرابت دار (اپنے مرنے کے وقت) چھوڑ جاویں اور (اسی طرح) عورتوں کے لئے بھی (خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی) حصہ (مقرر) ہے اس چیز میں سے جس کو (ان عورتوں کے) ماں باپ اور (یا دسرے) بہت نزدیک کے قرابت دار (اپنے مرنے کے وقت) چھوڑ جاویں خواہ وہ (چھوڑی ہوئی) چیز قلیل ہو یا کثیر ہو (سب میں سے ملے گا اور) حصہ (بھی ایسا جو) قطعی طور پر مقرر ہے اور جب (وارثوں میں ترکہ کے) تقسیم ہونے کے وقت (یہ لوگ) موجود ہوں (یعنی دور کے) رشتہ دار (جن کا میراث میں حق نہیں) اور یتیم اور غریب لوگ (اس توقع سے کہ شاید ہم کو بھی کچھ مل جاوے، رشتہ دار تو ممکن ہے کہ گمان استحقاق سے اور دوسرے لوگ بامید خیر خیرات کے) تو ان کو بھی اس (ترکہ) میں (جس قدر بالغوں کا ہے اس میں) سے کچھ دے دو اور ان کے ساتھ خوبی (اور نرمی) سے بات کرو (وہ بات رشتہ داروں سے تو یہ ہے کہ سمجھا دو کہ تمہارا حصہ شرع سے اس میں نہیں ہے، ہم معذور ہیں اور دوسروں سے یہ کہ دے کر احسان نہ جتلاؤ) اور (یتامی کے معاملہ میں) ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر اپنے بعد چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ (کرمر) جاویں تو ان (بچوں) کی ان (لوگوں) کو فکر ہو (کہ دیکھئے ان کو کوئی ایذ نہ دے، تو ایسا ہی دوسرے کے بچوں کے لئے بھی خیال رکھنا چاہئے، کہ ہم ان کو آزار نہ دیں) سو (اس بات کو سوچ کر) ان لوگوں کو چاہئے کہ (یتامی کے معاملہ میں) اللہ تعالیٰ (کے حکم کی مخالفت) سے ڈریں (یعنی فعلاً آزار و ضرر نہ پہنچائیں) اور (قولاً بھی ان سے) موقع کی بات کہیں (اس میں تسلی اور دل جوئی کی بات بھی آگئی، اور تعلیم و تادیب کی بات بھی آگئی، غرض ان کے مال اور جان دونوں کی اصلاح رہے) بلاشبہ جو لوگ یتیموں کا مال بلا استحقاق کھاتے (برتتے) ہیں اور کچھ نہیں اپنے شکم میں (دوزخ کی) آگ (کے انگارے) بھر رہے ہیں (یعنی انجام اس کھانے کا یہ ہونے والا ہے) اور (اس انجام کے مرتب ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں، کیونکہ) عنقریب (ہی دوزخ کی) جلتی (آگ) میں داخل ہوں گے (وہاں یہ انجام نظر آئے گا۔)
معارف و مسائل
والدین اور دیگر اقرباء کے اموال میں حق میراث۔
اسلام سے پہلے عرب اور عجم کی قوموں میں انسان کی صنف ضعیف، یتیم بچے اور صنف نازل عورتیں ہمیشہ طرح طرح کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں، اول تو ان کا کوئی حق ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور اگر کوئی حق مان بھی لیا گیا تو مردوں سے اس کا وصول کرنا اور اس کا محفوظ رکھنا کسی کی قدرت میں نہ تھا۔
اسلام نے سب سے پہلے ان کو حقوق دلائے پھر ان حقوق کی حفاظت کا مکمل انتظام کیا، قانون وراثت میں بھی عام اقوام دنیا نے معاشرہ کے ان دونوں ضعیف اجزاء کو ان کے فطری اور واجبی حقوق سے محروم کیا ہوا تھا۔
عرب نے تو اصول ہی یہ بنا لیا تھا کہ وراثت کا مستحق صرف وہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہو، اور دشمنوں کا مقابلہ کر کے اس کا مال غنیمت جمع کرے (روح المعانی ص 012 ج 4)
ظاہر ہے کہ یہ دونوں صنف ضعیف بچے اور عورتیں اس اصول پر نہیں آسکتیں، اس لئے ان کے اصول وراثت کی رو سے صرف جوان بالغ لڑکا ہی وارث ہوسکتا تھا، لڑکی مطلقاً وارث نہ سمجھی جاتی تھی، خواہ بالغ ہو یا نابالغ اور لڑکا بھی اگر نابالغ ہوتا تو وہ بھی مستحق وراثت نہ تھا۔
رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک واقہ پیش آیا کہ اوس بن ثابت کا انتقال ہوا اور دو لڑکیاں ایک لڑکا نابالغ اور ایک بیوی وارث چھوڑے، مگر عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان کے دو چچا زاد بھائیوں نے آ کر مرحم کے پورے مال پر قبضہ کرلیا اور اولاد اور بیوی میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، کیونکہ ان کے نزدیک عورت تو مطلقاً مستحق وراثت نہ سمجھی جاتی تھی خواہ بالغ ہو یا نابالغ اس لئے بیوی اور دونوں لڑکیاں تو یوں محروم ہوگئیں اور لڑکا بوجہ نابالغ ہونے کے محروم کردیا گیا، لہٰذا پورے مال کے وارث دو چچا زاد بھائی ہوگئے۔ اوس بن ثابت ؓ کی بیوہ نے یہ بھی چاہا کہ یہ چچا زاد بھائی جو پورے ترکہ پر قبضہ کر رہے ہیں تو ان دونوں لڑکیوں سے شادی بھی کرلیں تاکہ ان کی فکر سے فراغت ہو، مگر انہوں نے یہ بھی قبول نہ کیا، تب اوس بن ثابت کی بیوہ نے رسول کریم ﷺ سے عرض حال کیا اور اپنی اور اپنے بچوں کی بےکسی اور محرومی کی شکایت کی، اس وقت تک چونکہ قرآن حکیم میں آیت میراث نازل نہ ہوئی تھی، اس لئے آنحضرت ﷺ نے جواب دینے میں توقف فرمایا، آپ کو اطمینان تھا وحی الہی کے ذریعہ اس ظالمانہ قانون کو ضرور بدلا جائے گا، چناچہ اسی وقت یہاں نازل ہوئی۔
للرجال نصیب مماترک الوالدن والاقربون للنسآء نصیب مما ترک الوالدن والاقربون مما قل منہ اوکثرنصیباً مفروضا
اور اس کے بعد دوسری آیت وراثت نازل ہوئی جس میں حصوں کی تفصیلات ہیں، اور اس سورت کا دوسرا رکوع ان تفصیلات پر مشتمل ہے، حضور اقدس ﷺ نے احکام قرآنی کے مطابق کل ترکہ کا آٹھواں حصہ بیوی کو دے کر بایں طور پر سب مال مرحوم کے لڑکے اور لڑکیوں کو اس طرح تقسیم کردیا کہ اس کا آدھا لڑکے کو اور آدھے میں دونوں لڑکیاں برابر کی شریک رہیں اور چچا زاد بھائی بمقابلہ اولاد کے چونکہ اقرب نہ تھے اس لئے ان کو محروم کیا گیا۔ (روح المعانی)
استحقاق میراث کا ضابطہ۔
اس آیت نے وراثت کے چند احکام کے ضمن میں قانون راثت کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔
مما ترک الوالدن والاقربون، ان دو لفظوں نے وراثت کے دو بنیادی اصول بتلا دیئے، ایک رشتہ ولادت، جو اولاد اور ماں باپ کے درمیان ہے اور جس کو لفظ والدان سے بیان کیا گیا ہے دوسرے عام رشتہ داری جو لفظ قاقربون کا مفہوم ہے، اور صحیح یہ ہے کہ لفظ ”اقربون“ ہر قسم کی قرابت اور رشتہ داری کو حاوی ہے، خواہ وہ رشتہ باہمی ولادت کا ہو جیسے اولاد اور ماں باپ میں، یا دوسری طرح کا جیسے عام خاندانی رشتوں میں یا وہ رشتے جو ازدواجی تعلق سے پیدا ہوئے ہیں، لفظ ”اقربون“ سب پر حاوی ہے، لیکن والدین کو ان کی اہمیت کی وجہ سے بطور خاص جدا کردیا گیا، پھر اس لفظ نے یہ بھی بتلا دیا کہ مطلق رشتہ داری وراثت کے لئے کافی نہیں، بلکہ رشتہ میں اقرب ہونا شرط ہے، کیونکہ اگر اقربیت کو معیاری شرط نہ بنایا جائے تو ہر مرنے والے کی وراثت پوری دنیا کی تمام انسانی آبادی پر تقسیم کرنا ضروری ہوجائے گا، کیونکہ سب ایک ماں باپ آدم و حوا علہما السلام کی اولاد ہیں، دور قریب کا کچھ نہ کچھ رشتہ سب میں موجود ہے، اور یہ اول تو امکان سے باہر ہے، دوسرے اگر کسی طرح کوشش کر کے اس کا انتظام کر بھی لیا جائے تو متروکہ مال جزء لایتجزی بن کر ہی تقسیم ہو سکے گا جو کسی کے کام نہ آئے گا، اس لئے ضروری ہوا کہ جب وراثت کا مدار رشتہ داری پر ہو تو اصول یہ بنایا جائے کہ اگر نزدیک و دور کے مختلف رشتہ دار جمع ہوں تو قریبی رشتہ دار کو بعید پر ترجیح دے کر اقرب کے ہوتے ہوئے ابعد کو حصہ نہ دیا جائے، ہاں اگر کچھ رشتہ دار ایسے ہوں جو بیک وقت سب کے سب اقرب قرار دیئے جائیں، اگرچہ وجوہ اقربیت ان میں مختلف ہوں تو پھر یہ سب مستحق وراثت ہوں گے جیسے اولاد کے ساتھ ماں باپ یا بیوی وغیرہ کہ یہ سب اقرب ہیں اگرچہ اقربیت کی وجوہ مختلف ہیں۔
نیز ایک اور بات اسی لفظ ”اقربون“ نے یہ بتلائی کہ جس طرح مردوں کو مستحق وراثت سمجھا جاتا ہے اسی طرح عورتوں اور بچوں کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ رشتہ اولاد کا یا ماں باپ کا ہو، یا دوسری قسم کے رشتے ہر ایک میں رشتہ داری کی حیثیت لڑکے اور لڑکی میں یکساں ہے، جس طرح لڑکا ماں باپ سے پیدا ہوا ہے، اسی طرح لڑکی بھی انہی سے پیدا ہوئی ہے جب حق وراثت کا مدار رشتہ پر ہوا تو چھوٹے بچے یا لڑکی کو محروم کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
پھر قرآن کریم کے اسلوب کو دیکھئے کہ للرجال والنساء کو جمع کر کے مختصر لفظوں میں ان کے حق کا بیان ہوسکتا تھا، اس کو اختیار نہیں کیا، بلکہ مردوں کے حق کو جس تفصیل سے بیان کیا ہے اسی تفصیل و تشریح کے ساتھ عورتوں کا حق جداگانہ بیان فرمایا، تاکہ دونوں کے حقوق کا مستقل اور اہم ہونا واضح ہوجائے۔
نیز اسی لفظ ”اقربون“ سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ مال وراثت کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہے، اس لئے یہ ضروری نہیں کہ رشتہ داروں میں جو زیادہ غریب اور حاجت مند ہو اس کو زیادہ وراثت کا مستحق سمجھا جائے، بلکہ جو میت کے ساتھ رشتہ میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا، اگرچہ ضرورت اور حاجت بعید کو زیادہ ہو، اگر اقربیت کے ضابطہ کو چھوڑ کر بعض رشتہ داروں کے محتاج یا نافع ہونے کو معیار بنا لیا جائے تو نہ اس کا ضابطہ بن سکتا ہے اور نہ یہ ایک طے شدہ مستحکم قانون کی شکل اختیار کرسکتا ہے، کیونکہ اقربیت کے علاوہ دوسرا معیار لامحالہ وقتی اجتہادی ہوگا، کیونکہ فقر و حاجت کوئی دائمی چیز نہیں، اس لئے کہ حالات بھی بدلتے رہتے ہیں درجات بھی ایسی صورت میں استحقاق کے بہت سے دعویدار نکل آیا کریں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو ان کا فیصلہ مشکل ہوگا۔
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ۔
اگر اس قرآنی اصول کو سمجھ لیا جائے تو یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ جو آج کل بلاوجہ ایک نزاعی مسئلہ بنادیا گیا ہے، وہ خود بخود ایک قطعی فیصلہ کے ساتھ حل ہوجاتا ہے کہ اگر یتیم پوتا بہ نسبت بیٹے کے ضرورت مند زیادہ ہو، لیکن ”اقربون“ کے قانون کی رو سے وہ مستحق وراثت نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ بیٹے کی موجودگی میں اقرب نہیں، البتہ اس کی ضرورت رفع کرنے کے لئے دوسرے انتظامات کئے گئے ہیں جس میں سے ایک ایسا ہی انتظام اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
اس مسئلہ میں موجودہ دور کے مغرب زدہ مجددین کے علاوہ کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا، ساری امت آج تک قرآن و حدیث کی تصریحات سے یہی سمجھتی آئی ہے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے کو میراث نہ ملے گی، خواہ اس کا باپ موجود ہو یا مر گیا ہو۔
متوفی کی ملکیت میں جو کچھ ہو سب میں وراثت کا حق ہے۔
اس آیت میں مما قل منہ اوکثر فرما کر ایک دوسری جاہلانہ رسم کی اصلاح فرمائی گئی ہے، وہ یہ کہ بعض قوموں میں بعض اقسام مال کو بعض خاص وارثوں کے لئے مخصوص کرلیا جاتا تھا، مثلاً گھوڑا اور تلوار وغیرہ اسلحہ یہ سب صرف نوجوان مردوں کا حق تھا، دوسرے وارثوں کو ان سے محرم کردیا جاتا تھا، قرآن کریم کی اس ہدایت نے بتلا دیا کہ میت کی ملکیت میں جو چیز بھی تھی، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہر چیز میں ہر وارث کا حق ہے، کسی وارث کو کوئی خاص چیز بغیر تقسیم کے خود رکھ لینا جائز نہیں۔
میراث کے مقررہ حصے اللہ کی جانب سے طے شدہ ہیں۔
آخر آیت میں جو ارشاد فرمایا نصیباً مفروضاً ، اس سے یہ بھی بتلا دیا کہ مختلف وارثوں کے جو مختلف حصے قرآن نے مقرر فرمائے ہیں، یہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں، ان میں کسی کو اپنی رائے اور قیاس سے کمی بیشی یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں۔
وراثت ایک جبری ملک ہے اس میں مالک ہونے والے کی رضامندی شرط نہیں۔
اور اسی لفظ مفروضاً ، سے ایک اور مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ وراثت کے ذریعہ جو ملکیت وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے ملکیت جبری ہے نہ اس میں وارث کا قبول کرنا شرط ہے، نہ اس کا اس پر راضی ہونا ضروری ہے بلکہ اگر وہ زبان سے بصراحت یوں بھی کہے کہ میں اپنا حصہ نہیں لیتا تب بھی وہ شرعاً اپنے حصے کا مالک ہوچکا یہ دوسری بات ہے کہ وہ مالک بن کر شرعی قاعدہ کے مطابق کسی دوسرے کو ہبہ کر دے یا بیچ ڈالے یا تقسیم کر دے۔
محروم الارث رشتہ داروں کی دلداری ضروری ہے۔
میت کے رشتہ داروں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو ضابطہ شرعی کے ماتحت اس کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، لیکن یہ ظاہر ہے کہ فرائض کی تفصیلات کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا، عام طور پر ہر رشتہ دار خواہش مند ہوتا ہے کہ اس کو بھی میراث میں سے حصہ ملے، اس لئے وہ رشتہ دار جو شرعی ضابطہ میراث کے تحت محروم قرار دیئے گئے ہیں، تقسیم میراث کے وقت ان کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہوسکتا ہے خصوصاً جب کہ تقسیم میراث کے وقت وہ موجود بھی ہوں اور بالخصوص جبکہ ان میں کچھ یتیم اور مسکین حاجت مند بھی ہوں ایسی حالت میں جب کہ دوسرے رشتہ دار اپنا اپنا حصہ لے جا رہے ہوں اور یہ کھڑے دیکھ رہے ہیں ان کی حسرت وایاس اور دل شکنی کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن پر کبھی یہ کیفیت گزری ہو۔
Top