Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے (خدا کے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ (الآیۃ) اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی رواہ رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا، صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے تھے تمام مال کے وارث قرار پاتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتیں اور بچے، بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گے، انہیں محروم نہیں کیا جائے گا یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصہ سے نصف ہے، یہ عورت پر ظلم نہیں ہے نہ اس کا استخفاف ہے، بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث، عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے اس لحاظ سے عورت کے مقابلہ میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں اسلئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔
Top