Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
مردوں کے لئے حصہ ہے اس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے اس مال میں سے جس کو چھوڑ مریں، ان کے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ، مقرر کردہ حصے کے طور پر
18 استحقاق میراث کی اساس و بنیاد قرابت و رشتہ داری : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ میراث کی بنیاد اور اس کا استحقاق قرابت و رشتہ داری پر ہے، نہ کہ کسی اور امرپر، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا کہ وہ عورتوں اور بچوں کو میراث میں حصہ نہیں دیتے تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ میراث وہی پاسکتا ہے، جو دشمن کے مقابلے میں تیر چلا سکے، جان و مال کا دفاع کرسکے، اور غنیمت لاسکے، نیز رشتہ داری میں بھی مدار الاَقْرَبْ فَالْاَ قْرَبْ کے اصول پر ہے، کہ جو سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوگا اس کی موجودگی میں اس کے بعد والا محروم ہوگا، سبحان اللہ ! کیسا عمدہ اور جامع اصول اور ضابطہ ہے جو کہ عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، فَلِلّٰہ الحمدُ وَالمِنَّۃُ قَبْلَ کُل شَیْئ وَبَعْدَ کُل شَیْئٍ بہرکیف میت کے ترکے میں رشتہ داروں کا حق ہے، سو یتیموں کے حقوق کو بیان کرنے کے بعد، اب اس ارشاد سے اس قانون میراث کی تمہید ذکر فرمائی جا رہی ہے، جس میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق ان کے والدین اوراقرباء کے ترکے میں متعین فرما دیئے گئے ہیں، تاکہ زور آور عصبات اور دوسرے وارثوں کے لئے مورث کی تمام املاک و جائداد پر قابض ہوجانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے، جیسا کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا، اور آج بھی جہاں ظلم اور زور زبردستی کا دور دورہ ہے، وہاں ایسے ہی ہوتا ہے، سو اسلام نے قانون میراث کے ذریعے اس طرح کے ہر ظلم کا دروازہ بند کردیا فالحمد للہ رب العالمین۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم معاشرے میں اس پر عمل نہیں ہو رہا الا ماشاء اللہ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے راہ حق و ہدایت پر گامزن رکھے ۔ آمین۔ 19 وارث کو اس کا حق دینا ضروری ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو ان کا حق دو مقرر کردہ حصے اور فریضے کے طور پر۔ یعنی اس کا دینا اور اداء کرنا ضروری ہے، کہ یہ ان کا حق اور مقرر کردہ حصہ ہے، سو جس کا جو اور جتنا حصہ قاعدہ اور قانون کے مطابق بنتا ہو وہ اس کو دے دیا جائے، اس میں کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہ کی جائے کہ یہ اس کا حق ہے جو اللہ کی طرف سے اس کو ملا ہے، سبحانہ و تعالیٰ ، یہاں پر ان آیات کریمہ کا یہ پہلو بھی واضح رہے کہ اوپر کی آیات کریمات تلاوت کرتے ہوئے جب آدمی اس آیت پر پہنچتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یتیموں کی برکت سے دوسروں کے حقوق متعین کرنے کی راہ بھی کھل گئی، یعنی جو خود حقوق سے محروم تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے حقوق حاصل کئے بلکہ ان کی بدولت دوسروں کو بھی حقوق حاصل ہوگئے، خاص طور پر عورتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے کہ پہلی بار ان کو بھی مردوں کے پہلو بہ پہلو حقداروں کی صف میں جگہ ملی، اور اپنے والدین اوراقرباء کے ترکے میں سے ان کا حصہ بھی بطور فرض کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین فرما دیا گیا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، فللّٰہ الحمد جَلَّ وَعَلَا۔
Top