Asrar-ut-Tanzil - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور آپ ان کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے اپنی اپنی نیاز پیش کی پس ان دونوں میں سے ایک کی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی (تو وہ دوسرا) کہنے لگا میں تجھ کو ضرور قتل کردوں گا اس نے کہا یقینا اللہ صرف پرہیزگاروں سے قبول فرماتے ہیں
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 27 تا 34 ۔ اسرار و معارف : آپ انہیں آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں کا واقعہ سنائیے اور درست اور ٹھیک ٹھیک سنائیے جس میں کوئی کمی بیشی نہ ہو یعنی حق کے ساتھ کہ آپ ﷺ کی بعثت ہی حق ہے اور آپ کا سنانا اللہ کے بتانے یعنی اعلام من اللہ سے ہے جو حق ہوتا ہے اور بیان کرنے والے کا حق سے ہٹنا بعض اوقات قوموں کو عروج وزوال سے متصادم کردیتا ہے کہ ان تاریخی باتوں کے اثرات ہمیشہ دور رس ہوتے ہیں اس لیے ان کے بیان میں حق کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح پڑھنے اور سننے والے کو بھی تحقیق کرلینا چاہئے یہ تب کی بات ہے جب انہوں نے قربانی پیش کی۔ مفسرین نے بڑی تحقیق و جستجو سے جو واقعات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) اور مائی صاحبہ کی ملاقات ہوئی۔ سلسلہ توالد و تناسل چلا تو آپ کو ہمیشہ توام بچے نصیب ہوتے۔ جن میں ایک بیٹا ہوتا اور ایک بیٹی اب دوسرا تو کوئی انسان تھا نہیں صرف انہی کی اولاد تھی تو سگے بہن بھائی میں نکاح کو حلال نہ رکھا مگر تو ام پیدا ہونے والوں کو سگا بہن بھائی قرار دے کر دوسروں کے ساتھ نکاح کی اجازت دیگئی دو بیٹوں کے نام قابیل اور ہابیل لکھے جاتے ہیں قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی نسبتاً خوبصورت تھی اس نے کہا میں اس سے شادی کروں گا ہابیل اس سے کرے جو اس کے ساتھ پیدا ہوئی ہے آدم (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ یہ خلاف شریعت ہے اور ہرگز ممکن نہیں جب نہ مانا تو فرمایا لڑکی میرے پاس رہے گی تم دونوں بھائی قربانی پیش کرو اللہ نے جس کی قربانی قبول فرم الی اس کو دے دوں گا اب اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو ہوتا یہ تھا کہ قربانی کا جانور یا مال کھلے میدان میں رکھ دیتے آسمان سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی اگر قبول نہ ہوتی تو پری رہ جاتی چناچہ ہابیل کی قربانی تو قبول ہوگئی اور قابیل کی پڑی رہ گئی اب تو اللہ نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا تھا مگر یہ بھی اندر سے نہ مانا اور کہنے لگا آرام سے جینے نہ دوں گا۔ میں تجھے قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا بھائی ! ناراض کیوں ہوتے ہو ؟ اللہ کے ہاں تو قبولیت کے لیے اخلاص شرط ہے میں نے قربانی پیش کی خالص اللہ کے لیے کہ جو بھی فیصلہ وہ گا صدق دل سے قبول کروں گا تو نے پیش کی صرف لڑکی حاصل کرنے کی خاطر کہ تو اس کے حسن پہ مرمٹا تھا تجھے اللہ کی رضا کی پرواہ نہ تھی بظاہر طریقہ تو اللہ کی عبادت کا تھا مگر اندر مقصد ایک عورت کو حاصل کرنا تھا سو اخلاص نہ ہو تو اللہ کریم قبول نہیں فرماتے انہوں نے تمہاری قربانی رد کردی یہ آیہ کریمہ دیکھ کر بڑے بڑے متقی کانپتے تھے کہ خدایا ہمارا عمل رد نہ فرمانا کہ یہ شرط اتنی آسان شرط نہیں ہے اور ہاں اگر تو نے زیادتی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یہ تیرا فیصلہ ہے میں پھر بھی تیرے ساتھ اس لیے زیادتی نہیں کروں گا کہ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں۔ جو سارے جہانوں کے پالنے والے ہیں جان دینا انہیں ناراض کرنے کی نسبت آسان ہے اور میرا خیال یہ بھی ہے کہ اگر تو زیادتی کرے گا تو گنہ گار تو ہوگا ہی لیکن اگر مجھ سے کوئی خطا ہوچکی ہے تو وہ بھی اس وجہ سے کہ تو مجھے ناحق قتل کرنا چاہتا ہے تجھ پر لاد دی جائے گی اور یہ کثرت گناہ تجھے جہنم میں لے جائے گی کہ ظالموں کی سزا یہی ہے اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے کچھ بھائی کی نرمی اور کچھ نفس کی شرارت نے اسے مزید اکسایا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا یہ پہلا قتل تھا اور پہلا فساد تھا جو انسانوں کے درمیان بپا ہوا اور اب اسے وہ ندامت گھیرے ہوئے تھی جو ہر گناہ کے بعد گناہگار کو گھیر لیا کرتی ہے لیکن یہ وہ دور تھا کہ ابھی مرنے اور دفن کرنے کے بارے کسی کو علم نہ تھا۔ سو قتل تو کر بیٹھا اب اسے کیا کرے یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ نے ایک کوا بھیج دیا اسے دکھانے کو جس نے پنجوں سے زمین کھو دی اور ایک مردہ کوے کو اس میں ڈال کر اس پر مٹی ڈال دی تو اسے احساس ہوا کہ مجھے تو اس کوے کے برابر بھی عقل نصیب نہ تھی۔ اور بھائی دفن کردیا۔ مگر ندامت اور پچھتاوا اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ اسی لیے ہم نے بنی اسرائیل پر بھی فرض کردیا کہ بغیر شرعی اجازت کے یا شرعی سزا کے علاوہ یا محض فساد بپا کرنے کو کسی نے قتل کردیا تو اس نے ایک آدمی کو ہی قتل نہیں کیا بلکہ وہ انسانیت کا قاتل ہے اور اس پر اس قدر سزا مرتب ہوگی جس قدر انسانیت کے قتل پہ ہونی چاہئے ایسے ہی کسی نے بچا لیا ایک آدمی کو ظالموں سے جبکہ شرعی سزاؤں سے بچانا جو شرعاً واجب القتل ہیں انہیں بچانا جیسے میدان جنگ میں کافر۔ حربی تو خود گناہ عظیم ہے ہاں کسی کو ظلماً قتل ہونے سے بچا لیا تو اس نے انسانیت کو بچا لیا اور اس کے ساتھ مسلسل انبیاء بھیجے اور واضح احکام دے کر بھیجے لیکن بنی اسرائیل کی اکثریت ہمیشہ دست درازی اور زیادتی ہی کرتی رہی کبھی نسب پہ فخر کرتے اور کبھی اپنے جھوٹے اعمال پر حالانکہ انہیں بتا دیا گیا کہ پہلے دن سے شرط قبولیت تقوی اور خلوص ہے نہ نسب کام دے گا اور نہ دکھاوے کا عمل مگر یہ بد نصیب قوم کبھی سدھرنے میں نہیں آتی۔ اسلام اور جرم و سزا : قانون یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ہو یا کوئی دوسرا جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا قانون توڑنے پر کمر بستہ ہوجائے اس نے گویا اللہ سے اور اللہ کے رسول سے اعلان جنگ کردیا اب وہ قانون توڑ کر زمین پر فساد بپا کرتا ہے ڈاکے ڈالتا ہے امن عامہ اور لوگوں کے جان مال اور آبرو کے لیے خطرہ ہے تو ایسے لوگوں کے لیے شریعت میں سزا کے تین درجے مقرر ہیں اول حدود۔ ایسے جرائم جن میں حقوق اللہ بندے کے حقوق کی نسبت زیادہ مجروح ہوئے ان پر اللہ نے سزا مقرر کردی اب حاکم شہادت لے سکتا ہے۔ سزا وہی دے جو اللہ نے مقرر کی ہے یہ ڈاکے چوری زناء ، تہمت زما ، اور شراب خوری ان پانچ جرائم پر ہیں اگر ان میں شہادت پوری ہے تو شرعی طریقہ سے پوری سزا دی جائے گی خواہ جس کی چوری ہوئی وہ معاف بھی کردے حد جاری ہوگی۔ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر لوٹ کی غرض سے قتل کیا لوٹ نہ سکے تو قتل کئے جائیں گے اگر لوٹا بھی تو سولی دئیے جائیں گے۔ اگر صرف لوٹا اور قتل نہ کیا تو مخالف سمت سے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں گے لیکن اگر صرف حملہ کیا نہ قتل کرسکے نہ لوٹ سکے تو قید کردئیے جائیں گے دوسری سزا قصاص ہے جس میں بندے کا حق غالب ہے مثلاً کسی کو قتل کردیا یا زخم لگا دیا تو اگر مقتول کے ورثاء معاف کردیں تو سزا معاف ہوجائے گی۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ آزاد چھوڑ دیا جائے کہ دوسروں کی حفاظت بھی تو حکومت کی ذمہ داری ہے سو حاکم اپنی صوابدید پر اسے قید وغیرہ دے سکتا ہے اور تیسری قسم تعزیرات ہیں وہ سزائیں جو اس کے علاوہ جرائم پر قاضی یا عدالت کی صوابدید پر چھور دی گئی ہیں کہ حالات کے مطابق وہ سزا دیں یا عمل کریں اور یہ خاص خیال رہے کہ یہ سارا نظام جرم کے نتیجے میں رسوائی دینے کے لیے ہے نہ کہ مجرم معزز شہری کہ لانا شروع کردیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کو بہت بڑا عذاب دیا جائے گا ہاں کوئی ایسا گروہ جو قانون سے حکومت سے بغاوت کرکے قانون شکنی کی راہ اپنا لیتا ہے۔ اگر حکومت کے قابو آنے سے پہلے توبہ کرلے تو حکومت کو چاہئے کہ اسے معاف کردے لیکن گرفتاری کے بعد اگر توبہ بھی کرے تو وہ تو بہ آخرت میں کام آسکتی ہے دنیا کی سزا پوری پائے گا کہ اللہ کی توحید کا عقیدہ اور اس کی عبادت بھی ایک پرسکون معاشرے میں ہی نصیب ہوسکتی ہے ورنہ جہاں لوٹ مچی ہوئی ہو وہاں کسی پر وعظ کا اثر کیا ہوگا اور عبادت کی طرف رغبت کیسے ہوگی ؟ اس لئے معاشرے میں انصاف اور امن کا قیام ہی دین کی اساس اور بنیاد ہے کہ زمین اللہ کی ہے مخلوق بھی اللہ کی ہے رزق بھی اللہ کا ہے۔ تو خوف بھی صرف اللہ کا ہونا چاہئے اور کسی دوسرے کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ جب چاہے دوسروں کے جذبات سے کھیلتا پھرے حکومت اسلامیہ کا اصل فریضہ یہی ہے اسلام نے جرائم کو مختلف اقسام میں بانٹ دیا ہے اور ہر قسم کے لیے اسی درجہ کی سزا تجویز کی ہے جس درجہ کا جرم ہے اس اعتبار سے سزاؤں کے تین درجے ہیں حدود۔ قصاص۔ تعزیرات۔ جہاں بندوں کی نسبت حقوق اللہ زیادہ مجروح ہوتے ہیں ان پر سزا بھی اللہ نے مقرر کردی اور ان سزاؤں کو حدود کہتے ہیں یہ ڈاکہ ، چوری ، زنا ، تہمت زنا ، شراب خوری پانچ جرائم ہیں حدود میں اگر شرائط پوری ہوں شہادت درست ہو تو عدالت سزا میں کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ساتھ توبہ کا دروازہ بھی کھلا ہے لیکن اس سے حد جاری ہوگی آئندہ نیکی نصیب ہوگی یا آخرت کی بخشش نصیب ہوگی۔ ہاں اگر شرائط پوری نہیں کرتا مثلاً چوری کے لیے شرط ہے۔ کہ مال دوسرے کی ملکیت ہو اور اس میں لینے والے کی کوئی شراکت نہ ہو پھر مال محفوظ ہو مثلاً تالے وغیرہ میں بند ہو لینے والے کو قطعاً اجازت نہ ہو اگر آپ نے استعمال کی اجازت دے رکھی ہو اور وہ پکا ہی لے گیا تو سرقہ ثابت نہیں ہوگا۔ غرض فقہ میں تفصیل موجود ہے ان پر سزاؤں کا ذکر ہوچکا ہے اگر جرم ثابت ہوجائے شہادت مہیا ہوجائے تو حد جاری کی جائے گی اگر ذرا سا شبہ ثبوت جرم میں کہ یہ حدود میں آتا ہے یا نہیں ؟ یا شہادت میں ہوگیا تو حد جاری نہ ہوسکے گی مگر مرجم چھوٹ نہیں جائے گا مقدمہ تعزیرات میں چلا جائے گا ہاں ! ثابت ہوجائے تو متعلقہ شخص معاف بھی کردے حد معاف نہ ہوگی جاری کی جائے گی دوسری صورت قصاص کی ہے جس میں بندے کا حق غالب ہے اس میں زخمی کرنے سے لے کر قتل تک شامل ہے دانت کا بدلہ دانت اور قتل کا بدلہ قتل ، انسان کے قتل کے بدلے قاتل کو مطلق انسان ہی سمجھیں گے خواہ کسی بڑے آدمی نے غلام قتل کردیا ہو اس میں اگر وارث معاف کردیں تو سزا معاف ہوجائے گی اگر متعدد وارث ہیں ایک بھی معاف کردے تو قتل تو ٹل گیا اور سارے معاف کردیں تو سب سزا ٹل گئی توبہ کرے تو گناہ بھی معاف مگر مقدمہ خارج نہ ہوگا تعزیرات میں چلا جائے گا جہاں عدالت اور حکومت کا کام ہے کہ حالات کے مطابق چھوڑ دے یا قید کی سزادے یا کچھ جرمانہ بطور نصیحت کرے اور تیسرے تعزیرات وہ جرائم جن میں حقوق اللہ بھی مجروح ہوتے ہیں اور حقوق العباد بھی مگر سب سے زیادہ حکومت کے فرائض متاث رہوتے ہیں ان کی سز احکومت کو تجویز کرنے کا اختیار ہے جو شرعی مقاصد کے خلاف نہ ہو اور نہ دین کی یا سنت کی حدود سے باہر ہو کہ اصل مقصد لوگوں کی اصلاح قیام امن اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہے اس لیے توبہ کا دروزہ بھی کھلا رکھا اور ہر ہر جملے کے ساتھ اللہ پر ایمان اور اس کی عظمت سے حیاء کی بات کی ہے اور ساتھ ساتھ آخرت کا دائمی اور ابدی زندگی کا تذکرہ بڑے پیار بھرے انداز میں کیا ہے کہ اگر چند سکے یا تھوڑی سی لذت پر دائمی زندگی داؤ پر لگانا پڑے تو ایسا مت کرو۔ رہ گئے وہ لوگ جو یورپ سے متاثر ہیں اور اسلام سزاؤں کو بڑا وحشیانہ کہتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا بجائے خود کفر ہے انہیں چاہئے کہ یورپ میں جرائم کا اندازہ کریں باوجود اس کے کہ حکومت کی ساری مشینری پوری محنت سے کام کرتی ہے جرائم دن بدن بڑھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے وہاں جرائم کی فہرست میں بہت کم اعمال آتے ہیں نہ زناء جرم ہے نہ لواطت نہ جوا ، اگر اس میں زبردستی نہ کی جائے تو بتائیے ! اخلاقایت کی تباہی کے لیے کسی اور ڈائنامائیٹ کی ضرورت باقی ہے ؟ اسلامی قانون کی برکات : اب لے دے کے قتل ڈاکہ اور چوری رہ گئے جن کا اندازہ سب سے زیادہ انسانی حقوق کے علمبردار ملک امریکہ سے لگالیں کہ نیو یارک شہر کا اندازہ دو قتل فی یوم اوسطاً ہے چوری اور لوٹ مار کا یہ حال ہے کہ دس ڈالر نقد جیب میں لے کر جانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے اور راستے میں گاڑی پنکچر ہوجائے اور آپ کھڑی کرکے چلے جائیں اگر گھنٹہ بھر بعد لوٹیں گے تو صرف پنجر ملے گا انجن ٹائر ، پہئے ، اے سی ، ریڈیو ٹیپ وغیرہ کچھ نہیں لوگ نکال کرلے جا چکے ہوں گے اور یہ ان کی پوری کوششوں کا حاصل ہے جو وہ جدید آلات سے اور پوری دیانتداری سے کرتے ہیں مگر اسلامی ریاستوں میں ، عرب ریاستوں میں ، جہاں ٹوٹی پھوٹی حدود نافذ ہیں وہاں جا کر دیکھیں کہ ایک ایک دوکان کروڑوں روپے کے مال سے بھری ہے اور شیشے کی بنی ہوئی ہیں ایک لات مارو چور ہوجائے کوئی چوری نہیں کرتا کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی کوئی کسی کا مال نہیں چھین سکتا اور آج بھی روئے زمین پر مثالی امن اگر ہے تو عرب ریاستوں میں ہے ورنہ دنیا کے کسی گوشے میں نہیں وہاں آپ نے کتنے ٹنڈے ، پاؤں کٹے یا ہاتھ کٹے دیکھے ؟ ہمیں اللہ کریم سال میں تین چار بار بھی لے جاتا ہے گذشتہ چودہ برسوں میں ایک واقعہ قصاص کا دیکھنے میں آیا ورنہ جرم نہ ہونے کے برابر ہے تو چیزوں کو یا مال کو ان کے نتائج کے اعتبار سے لکھاجانا چاہئے اگر ایسا ہے تو پھر اسلام ہی ذریعہ نجات ہے اور اسلامی سزائیں ہی قیام امن میں مدد کرسکتی ہیں۔
Top