Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم وکاست سنا دو ۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ” میں تجھے مار ڈالوں گا ۔ “ اس نے جواب دیا ” اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے ۔
(آیت) ” نمبر 27 تا 31۔ یہ ایک قصہ ہے جو بطور نمونہ شر اور ظلم یہاں لایا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسے صریح ظلم کا نمونہ ہے جس کے لئے کوئی وجہ جواز نہ ہو اور یہی قصہ ایک ایسا نمونہ بھی پیش کرتا ہے جو نیک نفسی اور رواداری کا اعلی نمونہ ہے اور یہ نمونہ نہایت ہی پاک طینت اور صلح کل نمونہ ہے ۔ اس قصے میں یہ دونوں نمونے ایک دوسرے کے بالمقابل پیش کئے جاتے ہیں ۔ ہر اک اپنے مزاج کے مطابق اور اپنی فطرت کے مطابق عمل کرتا ہے ۔ یہ قصہ اس جرم کی نقشہ کشی کرتا ہے ‘ جو بدی اور صریح ظلم کا مظہر ہے اور اسے پڑھ کر انسانی ضمیر میں جوش آتا ہے اور وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ایسے صریح ظلم کے خلاف قانون قصاص ضروری ہے ۔ ایک عادلانہ قانون نظام ہی اس بدی صریح ظلم کے ارتکاب سے روکتا ہے جس کے بعد یہ بدی ظلم کے ارتکاب سے رک جائے گی اور اسے ارتکاب جرم سے خوفزدہ کرکے باز رکھا جاسکے گا ۔ اگر اس تخویف کے بعد بھی بدی جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو اسے منصفانہ سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ وہی سزا جو اس بدی کے جرم کے بالکل مناسب ہو ‘ تاکہ معاشرے کے نیک نفس لوگوں کو بچایا جائے اور نیک نفس لوگوں کی جان ومال محفوظ ہوں اس کے لئے اس قصے میں جس قسم کے نیک نفس لوگوں کا نمونہ پیش کیا گیا ہے وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں تحفظ دیا جائے ‘ وہ زندہ رہ سکیں ‘ امن سے رہیں اور ایک عادلانہ قانونی نظام وانتظام کے تحت رہیں ۔ قرآن کریم نے ان دو بھائیوں کے نام اور زمان ومکان کے بارے میں تفصیلات نہیں دی ہیں ‘ اگرچہ بعض روایات اس سلسلے میں ہابیل اور قابیل کے بارے میں وارد ہیں ۔ یہ دونوں حضرت آدم کے بیٹے تھے اور ان کے درمیان تنازعہ کی تفصیلات بھی ان روایات میں دی گئی ہیں کہ ان دونوں کا تنازعہ دو بہنوں کے سلسلے میں تھا ۔ لیکن ہم اس قصے کو اسی طرح مجمل چھوڑنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ تمام روایات قطعی الثبوت نہیں ہیں ۔ یہ اہل کتاب سے لی گئی ہیں ۔ یہ قصہ عہد قدیم میں آیا ہے جہاں دونوں کے نام بھی لئے گئے ہیں اور اس میں اس واقعہ کا زمان ومکان بھی دیا گیا ہے جیسا کہ روایات میں آتا ہے ۔ اس قصے کے متعلق جو ایک صحیح حدیث وارد ہے اس میں بھی تفصیلات نہیں دی گئیں ۔ یہ روایت حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” کہ کوئی شخص بھی اگر ظلما قتل ہوگا تو حضرت آدم کے پہلے بیٹے پر اس خون کی ذمہ داری میں سے ایک حصہ ہوگا کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل انسان کا رواج ڈالا ۔ “ (روایت امام احمد) اس کا سلسلہ سند یہ ہے اعمش ‘ عبداللہ ابن مرہ ‘ مسروق ‘ عبداللہ ابن مسعود ؓ ابو داؤد کے سوا دوسرے محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے ۔ اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت انسان کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں پیش آیا ۔ اور یہ قتل عمل کا پہلا واقعہ تھا اور قاتل کو اس قدر بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اب میت کو کس طرح دفنائے ۔ اس قصے کو اسی مجمل چھوڑنا جس طرح قرآن کریم میں آیا ہے ۔ مقصد قصہ پر کوئی اثر نہیں ڈالتا ۔ جس غرض کے لئے اسے لایا گیا ہے وہ اچھی طرح سے پوری ہوجاتی ہے اور اس کے اشارات وہدایات پوری طرح سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ قصے کے جو بنیادی مقاصد ہیں ‘ روایات کی تصیلات ان پر کوئی چیز زیادہ نہیں کرتی اس لئے ہم بھی اسے یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ تفصیلات کی ضرورت ہے اور نہ اختصار کی ۔ (آیت) ” وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (27) ” اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بےکم وکاست سنا دو ۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ” میں تجھے مار ڈالوں گا ۔ “ اس نے جواب دیا ” اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے ۔ یعنی ان لوگوں کے ان دو نمونوں میں سے دونوں کی مثال پیش کرو ‘ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے ان واقعات کے بعد سچائی پر مبنی یہ دو نمونے ان کے سامنے رکھو ۔ یہ قصہ اپنی روایت کے اعتبار سے بالکل سچا ہے اور یہ اس لحاظ سے بھی حق ہے کہ انسانی فطرت کے اندر یہ دو نمونے ہر زمان ومکان میں پائے جاتے ہیں ۔ پھر یہ اس پہلو سے بھی حق ہے کہ یہ ایک منصفانہ نظام عدل کا تقاضا کرتا ہے جس سے شرپسندلوگ ارتکاب جرم سے باز آجائیں ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے حالات ایسے تھے کہ ان میں کسی ایک کا قتل کے لئے آمادہ ہوجانا اپنے اندر کوئی جواز نہیں رکھتا ۔ یہ دونوں اللہ کے مطیع فرمان ہیں۔ دونوں قربانی کرتے ہیں ۔ (آیت) ” اذ قربا قربانا “۔ (5 : 27) (جب دونوں نے قربانی کی) لیکن ہوا یہ کہ ایک کی قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ ہوئی (آیت) ” فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الاخر “۔ (5 : 27) یہاں فتقبل من فعل مجہول استعمال ہوا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ قربانی کا قبول کیا جانا یا نہ کیا جانا ‘ ایک ایسا معاملہ ہے جو غیبی قوت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس کی کیفیت بھی غیبی ہے ۔ غائب کا صیغہ استعمال کرنے کے دو فائدے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہمیں اس قبولیت اور عدم قبولیت کی کیفیت کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تفاسیر میں ان آیات کی تشریح میں بہت سے قصے بیان کئے گئے ہیں اور یہ قصے عہد نامہ قدیم سے لئے گئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی ‘ اس نے کوئی جرم نہ کیا تھا کہ اس کے ساتھ عناد کیا جائے اور اس کے قتل کی سازش کی جائے ‘ اس لئے کہ قربانی کی قبولیت میں اس کا کوئی دخل نہ تھا ‘ بلکہ یہ قبولیت انسانی نقطہ نظر سے ایک غیبی قوت کی جانب سے ایک غیبی کیفیت کے مطابق ہوئی ۔ یہ قوت ان دونوں کے ادراک سے وراء ہے اور اس کی مشیت بھی انسان کی میشت سے وارء ہے ۔ لہذا اس فعل پر اپنے بھائی کا گلا گھوٹنے کا اس کے پاس کوئی جواز نہ تھا یا یہ جواز بھی نہ تھا کہ بھائی کے قتل کے لئے کوئی جوش میں آجائے ۔ اس معاملے میں قتل پر آمادہ ہوجانا کسی بھی سلیم الفطرت انسان سے مستبعد ہے کیونکہ معاملہ عبادت کا ہے اور قبولیت اور عدم قبولیت قوت غیبہ کی طرف سے ہے جس میں کسی انسان کا کوئی داخل نہیں ہے ۔ (آیت) ” قال لاقتلنک “۔ (5 : 27) (میں تجھے مار ڈالوں گا) نظر آتا ہے کہ قاتل اس فعل کے ارتکاب پر تلا ہوا تھا اس لئے اس نے نہایت ہی مؤکد صیغہ استعمال کیا ہے ۔ قاتل یہاں جوش و خروش کا اظہار بغیر کسی معقول وجہ کے کر رہا ہے یعنی اس کا یہ غصہ بالکل بلاوجہ ہے ۔ اس کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ اس کا خبیث ارادہ اور برا احساس ہے ‘ جو حسد اور بغض سے بھرا ہوا شعور ہے جس کی نشوونما کسی پاک نفس میں نہیں ہوتی ۔ قصے کے اس منظر میں پہلے مرحلے میں ہم اپنے آپ کو ظلم کے سامنے پاتے ہیں اگرچہ آیت مکمل نہیں ہوئی لیکن اس لفظ ہی سے ارتکاب جرم کے اشارے مل جاتے ہیں ۔ اب بات آگے بڑھتی ہے اور اس ظلم کو مزید بھیانک شکل دے دی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسرا نمونہ قابل قبول ہے پاک فطرت اور صلح کل ہے ۔ (آیت) ” قال انما یتقبل اللہ من المتقین “۔ (5 : 27) (بےشک اللہ متقیوں کی نذریں قبول کرتا ہے) یہاں علی الاعلان بات کو اصلیت اور حقیقت کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے ۔ ایمان پر بھروسہ کیا جاتا ہے جسے قبولیت حاصل ہوتی ہے اور نہایت ہی لطیف انداز میں ظالم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور اسے اس راہ کی طرف بلایا جاتا ہے جو قبولیت کی راہ سے اس صورت حال کی طرف بھی لطیف اشارہ کردیا جاتا ہے جو اس کے دل میں کھٹک رہی ہے اور اسے جوش دلاتی ہے اور بدی پر آمادہ کرتی ہے ۔ اس کے بعد مومن بھائی ‘ جو خدا ترس ‘ صلح کل اور پرامن شخصیت ہے وہ اپنے شریر بھائی کے دل میں پائے جانے والی وحشیانہ شرپسندی کے جوش کو کس طرح کم کرنا چاہتا ہے ۔
Top